مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں ہونے والی نسل کشی، انسانی قوانین کی خلاف ورزی اور مقدس مقامات کی بے حرمتی کی پرزور انداز میں مذمت کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو بیدار کرنا نہایت واجب عمل ہے۔
عالمی سطح پر ہم مسئلہ فلسطین کے حوالے سے دنیا بھر میں بیداری کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ اور جرمنی جیسے صیہونیت پرست ممالک بھی میں فلسطین کی حمایت میں وسیع پیمانے پر مظاہرے اور جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ لیکن مکہ مکرمہ میں فلسطینی پرچم اٹھانا اور فلسطین کی حمایت میں نعرے لگانا جرم بن چکا ہے۔
اس سلسلے میں مہر خبررساں ایجنسی کے عربی سیکشن نے لبنان کے معروف سنی عالم دین شیخ احمد متعب القطان" کا انٹرویو کیا ہے جس کا متن درج ذیل ہے:
مہر نیوز: آپ آل سعود حکومت کے ان خدشات کو کس طرح دیکھتے ہیں کہ جس نے حج کے دوران صیہونیت مخالف نعروں پر پابندی لگا رکھی ہے؟ سعودی حکومت کے اس اقدام کا ہدف کیا ہے؟ کیا مسلمانوں کا غزہ کے لوگوں کی مصیبت سے نجات اور اسلام اور مسلمانوں کی فتح کے لئے دعا کرنا سعودی حکومت کو ناگوار ہے؟
شیخ احمد القطان: حج کے دوران فلسطین کی حمایت کے نعروں بالخصوص غزہ سمیت دنیا بھر کے مظلوم عوام کی حمایت کے نعروں پر پابندی لگا کر آل سعود حکومت نے امریکی اور صیہونی دشمن کے ساتھ عملی یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔
سعودی حکومت صیہونی رجیم اور امریکہ کو ظالم کہنے کی جرات نہیں رکھتی اور وہ غزہ یا فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کی بھی صلاحیت نہیں رکھتی، اسی لئے ہم آل سعود کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سعودی حکومت اپنے شہریوں کو فلسطین کی حمایت میں احتجاج اور مظاہرے کرنے سے روکتی ہے اور جو کوئی بھی سوشل میڈیا میں فلسطینی قوم کے حقوق اور غزہ میں صیہونی قبضے کے خلاف مزاحمت کی حمایت میں کوئی مضمون شائع کرے تو اسے سخت سزا سزا دی جاتی ہے اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے اور کیا سعودی حکومت کو اسلامی ممالک کے خلاف ایسی پابندیاں لگانے کی اتھارٹی حاصل ہے؟
سعودی حکومت نہ صرف اپنے شہریوں کو صیہونیت مخالف مظاہروں سے روکتی ہے بلکہ اگر وہ سوشل میڈیا میں صیہونی رجیم کے خلاف ایک مضمون بھی شائع کریں تو انہیں سخت سزا دی جاتی ہے۔ سعودی جانتے ہیں کہ اس اقدام کا مطلب صیہونی رجیم سے دشمنی ہے جو کہ امریکہ کا اہم اتحادی ہے جبکہ ریاض بھی امریکہ کے اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ سعودی حکومت اسلام کے دشمنوں کی اتحادی ہے اس لئے اپنے شہریوں کو ان کی مذمت کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
البتہ میں اس سلسلے میں عرب اور اسلامی اقوام کو بے قصور نہیں سمجھتا، کیونکہ ان کا فرض ہے کہ وہ فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کے لئے عملی اقدام کریں۔
اس سال حج میں کون سے نعرے لگانے پر پابندی ہے؟ کیا اس ممانعت کی کوئی شرعی بنیاد ہے یا یہ نعرے حج کی روح کے منافی ہیں؟ کیا حرمین شریفین پر آل سعود کی حکمرانی سے پہلے مسلمانوں کو حج کے مراسم میں آزادی حاصل تھی؟
حج میں کافروں اور ظالموں سے اظہار برائت کا معاملہ ایک ضروری اور ناقابل تردید عمل شرعی ہے، کیونکہ اس کا مطلب سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ میری رائے میں حج جیسے وحدت بخش اجتماع سے امت اسلامیہ سے متعلق مسائل کا جائزہ لینے کے لیے فائدہ اٹھانا چاہیے اور موجودہ حالات میں مسئلہ فلسطین سے زیادہ اہم اور ضروری مسئلہ کون سا ہے؟ کیا دنیا میں فلسطینی بھائیوں پر ہونے والے ظلم سے بڑھ کر کوئی ظلم اس وقت موجود ہے؟ غزہ میں نسل کشی جاری ہے، اور ہم 37,000 سے زیادہ فلسطینیوں کی شہادت اور 80,000 سے زیادہ کے زخمی ہونے کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین، بچے اور بوڑھے ہیں۔
اس صورت حال میں عرب اور اسلامی ممالک سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ ایسے میں عربوں کو کیا کرنا چاہیے؟ ہم سب پر فرض ہے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور عرب حکمرانوں سے اس مسئلے کا مطالبہ کریں۔ تمام عرب اور اسلامی اقوام کو فلسطین اور غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے احتجاجی جلوسوں اور دستیاب وسائل کو منظم کرکے فلسطینی قوم کی حمایت کرنی ہے اور یہ ہمارا شرعی فریضہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرہ کو جسد واحد قرار دیا ہے کہ جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا بدن درد سے بلبلا اٹھتا ہے۔