مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گذشتہ ہفتوں سے مقبوضہ فلسطین کے شمال میں فوجی سرگرمیاں شدت پکڑ چکی ہیں جہاں صیہونی رجیم اور لبنان کی حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسرائیل کے لیے شمالی محاذ غزہ سے پناہ گزینوں کو لبنان کی سرحد میں منتقل کرنے کے ذریعے کشیدگی کو مرکز سے حاشیے میں لے جانے کے جنگی اہداف کا علاقہ ہے۔ لیکن حزب اللہ اس ہدف کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔
اس کے علاوہ، 7 اکتوبر کے بعد، اسرائیلی رائے عامہ ماضی کی طرح اسرائیلی فوج کی برتری پر یقین نہیں رکھتی۔ صیہونی رجیم کے لئے غزہ سے باہر جنگ کا پھیلاؤ مزید پیچیدہ صورتحال کا باعث بنے گا اور خطے کو ایک مکمل جنگی صورتحال میں دھکیل دے گا، دوسری طرف حزب اللہ کے ساتھ تصادم ماضی کی لڑائیوں جیسا نہیں ہوگا۔ کیونکہ حزب اللہ کی عسکری اور سیاسی پیشرفت ایسی حیرت ناک ہے کہ بعض اسرائیلی داخلی ماہرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ براہ راست تصادم میں داخل ہونے سے صیہونی حکومت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اسے غیر متوقع نقصانات ہوں گے۔
حزب اللہ کا دو دہائیوں میں زبردست دفاعی اور جارحانہ طاقت کا حصول
حزب اللہ کا فلسفہ وجود ہی صیہونی رجیم کی بیخ کنی پر استوار ہے۔ درحقیقت حزب اللہ نے اسرائیل کی نابودی کے ہدف سے اپنا وجود پا لیا ہے۔ اس لیے اس گروپ کی فوجی طاقت میں اضافہ کسی بھی صورت حال میں اسرائیل کے مفادات کے خلاف خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
1980 اور 1990 کی دہائیوں میں تل ابیب اور حزب اللہ کے درمیان تنازعات کے کئی ادوار رہے، 2000 میں حزب اللہ لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کو نکالنے باہر کرنے میں کامیاب ہوئی اور 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ حزب اللہ کی برتری کے ساتھ ختم ہوئی۔
2006 سے حزب اللہ ایک مشکل لیکن زبردست عمل سے گزری ہے اور اب اسے فوجی ہتھیاروں کی مقدار کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا غیر ریاستی گروپ سمجھا جاتا ہے۔ ان برسوں کے دوران حزب اللہ نے لبنان کے جنوب میں زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا دیا ہے، جس کی وجہ سے اسرائیل سکتے میں ہے، خاص طور پر حماس کے ساتھ جنگ کے اس طریقے کا تجربہ کرنے میں ناکامی کے بعد تو اسرائیل کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔
جب کہ حزب اللہ کو شام کی جنگ اور اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑائی کا وسیع تجربہ حاصل ہے جسے سے اس نے اپنی لاجسٹک صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور بہت سے جدید فوجی سازوسامان کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھا ہے۔
2006 میں حزب اللہ کی میزائل صلاحیت چند مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں تک محدود تھی، لیکن اب، جارحانہ اور دفاعی دونوں جہتوں میں اپنی میزائل طاقت بڑھانے کے ساتھ، اس تنظیم نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے تقریباً 200,000 میزائلوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، جن سے وہ اسرائیل کی اہم فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اپنی فوجی طاقت کو بہتر بنانے کے علاوہ، حزب اللہ نے صیہونی رجیم کے ساتھ اپنی آخری براہ راست لڑائی کے بعد سے سیاسی نقطہ نظر سے بھی مثبت پیش رفت کی ہے اور اب اسے لبنانی سیاست کے میدان میں ایک اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
حزب اللہ لبنانی کابینہ میں سیاسی طور پر ایک فعال جماعت کے طور پر کردار ادا کرتی ہے۔ حزب اللہ کا موجودہ سیاسی وزن اسے وسیع کردار ادا کرنے اور لبنان کے اندر اور باہر فوجی اور سیاسی حمایت سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنائے گا۔
دوسری جانب حزب اللہ کی ابلاغی قوت اور اس رجحان کی سافٹ پاور میں اضافے نے ایسی صورتحال پیدا کردی ہے کہ اسرائیل ماضی کی طرح بیانیہ کی جنگ نہیں جیت پائے گا۔
نتیجہ
صیہونی رجیم کے مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ میں حزب اللہ کے ساتھ براہ راست تصادم کو ایک سٹریٹجک غلطی سمجھا جاتا ہے جس کے تل ابیب کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔
مزاحمتی محور کے طاقتور ارکان میں سے ایک کے ساتھ براہ راست تصادم صیہونی رجیم کی انٹیلی جنس اور فوجی کمزوریوں کو مزید آشکار کر دے گا۔ گزشتہ دو دہائیوں میں حزب اللہ کی عسکری طاقت میں بہتری کو دیکھتے ہوئے، حزب اللہ اور تل ابیب کے درمیان براہ راست تصادمطایک ایسی دلدل ہوگی جس سے نکلنا نیتن یاہو کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔