مہر نیوز کے مطابق، ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کنی نے روس کے شہر نزنی نوگوروڈ میں برکس وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قابض اور نسل پرست رجیم کو فوجی، مالی، سیاسی، قانونی اور میڈیا کی حمایت فراہم کرنا یک قطبی نظام کی تسلط پسندی اور غنڈہ گردی کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے نئے عالمی مالیاتی، اقتصادی، تجارتی اور سیاسی ڈھانچے کے قیام کے لیے برکس کے اندر ابھرتے ہوئے کثیر الجہتی اتحاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے غزہ میں صیہونی رجیم کے جرائم کی حمایت میں مغربی یکطرفیت کے منفی اثرات کو برملا کیا۔
علی باقری نے غزہ کی سنگین صورت حال کو موجودہ امریکی ورلڈ آرڈر کی بہیمانہ فطرت کے نتائج کے طور پر بیان کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں دسیوں ہزار بے گناہوں کی شہادت، خواتین اور بچوں کا قتل عام، بے بس لوگوں کی ہجرت، متعدد صحافیوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ارکان کا قتل، شہری بنیادی ڈھانچے کی تباہی، متعدد طبی، مذہبی، تعلیمی، اور انتظامی اداروں کی بربادی، مظلوم فلسطینی عوام میں مختلف بیماریوں کا پھیلاؤ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قابض رجیم کو فوجی، مالی، لاجسٹک، سیاسی، قانونی مدد فراہم کرنا اس یک قطبی نظام کے بھیانک نتائج میں سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف ہے کہ قابض رجیم کے خلاف جدوجہد ایک ناقابل تردید حقیقت ہے اور فلسطین کا واحد پائیدار حل تمام مقبوضہ علاقوں سے ناجائز قبضے کا فوری اور غیر مشروط خاتمہ ہے، جس کے بعد اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک ریفرنڈم کرایا جائے جس میں تمام فلسطینیوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو شامل کیا جائے تاکہ فلسطینی قوم اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکے۔
انہوں نے تسلط پسند نظام کے اقتصادی پابندیوں جیسے ہتھکنڈوں کو استکباری ذہنیت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کی طرف سے لگائی گئی یکطرفہ پابندیوں کا برسوں سے مقابلہ کیا اور مزاحمتی نظام معیشت کے تصور کے ذریعے اس دباؤ کے ماحول میں ترقی کی نئی راہیں کھولنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس نقطہ نظر میں لچکدار داخلی میکانزم کو نافذ کرنا اور محفوظ بیرونی روابط قائم کرنا شامل ہے، جس سے ایران کو پابندیوں کو مؤثر طریقے سے ناکام بنانے اور ان سے بچنے کا راستہ میسر آ گیا ہے۔
ایرانی قائم مقام وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مزاحمتی نظام معیشت کے ماڈل کو عملی طور پر پیش کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ برکس اور اس کے اتحادی ممالک ایک قابل عمل مالیاتی ماڈل اور خود مختار بینکاری سسٹم پر سنجیدگی سے غور کریں تاکہ دنیا پر مسلط یک قطبی تسلط پسندانہ نظام سے چھٹکارہ مل سکے۔