مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کا پیغام تہران کی علاقائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں آج (ہفتہ) ان کے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر جنرل سبید رسول موسوی نے پڑھ کر سنایا۔
ایرانی قائم مقام وزیر خارجہ کے اس اجلاس کے لئے بھیجے گئے پیغام کا متن درج ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
اس اہم اجلاس میں چین، روس، پاکستان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خصوصی نمائندوں کی موجودگی قابل تعریف ہے جو تہران میں افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے جمع ہوئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ آپ نیک نیتی کے ساتھ افغانستان کے عوام، پڑوسیوں، خطے کے ممالک اور عالمی سطح پر بقائے باہمی کے لئے تعمیری تجاویز اور راہ حل پیش کریں گے۔
قابض (امریکہ اور نیٹو) افواج کو افغانستان سے نکلے تقریباً تین سال گزر چکے ہیں اور اس دوران ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ افغانستان کے زیادہ تر مسائل اور چیلنجز کی جڑیں اس ملک پر چڑھائی کرنے والے ممالک کی استحصالی پالیسیوں میں تلاش کرنی چاہئیں۔ اس ملک کی ترقی اور معاشی نمو پر توجہ کا فقدان اور قابضین کی طرف سے اس پر پسماندگی کو مسلط کرنا سہم مسائل میں سے ہے۔
آج اگرچہ قابض ممالک افغانستان کی سرزمین سے نکل چکے ہیں لیکن درحقیقت وہ افغان عوام کے اثاثوں کو روک کر ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ افغانستان کے امن، استحکام اور ترقی کے لیے تمام تعمیری اقدامات کی حمایت کی ہے اور ان اقدامات میں سرفہرست افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اور ماسکو فارمیٹ ہے جس میں اسلامی جمہوریہ ایران گزشتہ تین سالوں میں ایک فعال شریک رہا ہے۔
ہماری اجتماعی تقدیر (مفادات) یہ تقاضا کرتی ہے کہ افغانستان میں ایک کامیاب حکومت کے حصول کے لئے قومی مفاد کے نتائج کی وضاحت کریں۔ لہٰذا علاقائی بنیادوں پر مشترکہ اہداف کی طرف بڑھنا مذاکرات کے آغاز کی طرف ایک بڑا قدم ہے جو ہمیں افغانستان کے ساتھ دوطرفہ اور کثیرالجہتی معاہدوں کی طرف لے جا سکتا ہے۔
دونوں ہمسایہ ممالک اور علاقائی سربراہی اجلاسوں کے مذاکرات، فیصلوں اور مشترکہ بیانات کی روشنی میں ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ خطے کے ممالک افغانستان کے امن، استحکام، ترقی اور مستقبل میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ افغانستان کے لیے علاقائی اور ہمسایہ ممالک کے اجلاسوں کا سب سے اہم مشترکہ پیغام یہ رہا ہے کہ اسے صرف افغانستان کے مسائل بیان کرنے اور دہرانے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان چیلنجوں اور مسائل پر قابو پانے کے لئے راہ حل بھی ڈھونڈنا چاہئے۔
اگر آج افغانستان پسماندگی اور شدید معاشی مسائل کا شکار ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس پسماندگی اور معاشی مسائل کی ذمہ داری اس سرزمین پر چڑھائی کرنے والے ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے قبضے کے دوران ملک کا تمام معاشی ڈھانچہ تباہ کر دیا۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ انسانی ذمہ داریوں سے نہیں بچ سکتے اور انہیں سیاسی مداخلتوں کے بغیر اس ملک کی معاشی پسماندگی کی تلافی کے لیے اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔
محترم ساتھیو
جس اہم مسئلے پر افغانستان کی گورننگ باڈی اور خطے کے ممالک کو خصوصی توجہ دینا ضروری ہے وہ ہے افغانستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔
مجھے یقین ہے کہ افغانستان کے عوام، حکومت اور خطے کے دیگر ممالک اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ جن لوگوں کو کل فوجی میدان میں شکست ہوئی، وہ اس بار سیاسی نعروں یا انسانی امداد کے بہانے اس ملک کو پھر سے ہتھیا لیں، اس ملک نے آزادی، قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے کئی دہائیوں سے لاکھوں افراد کا خون دیا ہے۔
مذکورہ ممالک سیاست اور مختلف کانفرنسوں کے انعقاد کے ذریعے ان اہداف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو جنگ کی صورت میں حاصل نہیں ہو سکے۔
آج خطے کے ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو افغان شہریوں کی ہجرت کی موج کا سامنا ہے جو ایک طرف میزبان ممالک کی معیشت پر دباؤ ڈالتے ہیں تو دوسری طرف اپنے ملک افغانستان کو تعمیری افرادی قوت سے محروم کر رہے ہیں۔
افغان تارکین وطن کے انتظامی معاملات میں افغان حکومت کے ساتھ خطے کے ممالک کا تعاون خطے اور خود افغانستان کے لئے ترقی کے مواقع پیدا کر رہا ہے۔
مناسب ہے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک ذمہ دارانہ طریقہ کار ایجنڈے پر رکھا جائے تاکہ افغانستان کی نگران حکومت افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس بھیجتے ہوئے انہیں زمین اور رہائش فراہم کر سکے۔ افغان عوام کے اس اہم حصے کا اپنے ملک کی ترقی میں حصہ لینا ضروری ہے اور مہاجرین کی باوقار واپسی کے لیے ضروری ضمانتیں نگران حکومت فراہم کرتی ہیں۔
اقتدار میں آنے سے قبل افغانستان کے حکمراں ادارے نے مختلف ملاقاتوں اور مذاکرات میں ملک کے تمام نسلی گروہوں اور طبقوں کی موجودگی کے ساتھ حکومت کی تشکیل کی ضرورت پر زور دیا تھا اور اس سلسلے میں مثبت اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں لیکن متنوع چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو امید ہے کہ مختلف نسلوں اور طبقوں کے عوام کی شرکت سے افغانستان کو سیاسی استحکام اور معاشی ترقی ہو حاصل گی۔ ہمسایہ ممالک اور علاقائی اجلاسوں کے بیانات میں افغانستان میں ایک مخلوط حکومت کی تشکیل کی ضرورت توجہ اسی ہدف کی طرف ہے۔
آج کی دنیا رابطوں کی دنیا ہے۔ افغانستان ایک ایسے جغرافیائی علاقے میں واقع ہے جو مشرق و مغرب اور شمال جنوب کے روابط کا سنگم ثابت ہو سکتا ہے اور اگر افغانستان اس طرح کے روابط قائم کرتا ہے تو گویا اس نے اپنی قومی ترقی اور خطے میں ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔
خوش قسمتی سے ہم گواہ ہیں کہ جس طرح اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی ریلوے اور سڑکوں کو افغانستان کے مواصلاتی راستوں سے جوڑنے میں دلچسپی لی ہے اسی طرح دوسرے ہمسایہ ممالک نے بھی اس سلسلے میں اقدامات کیے ہیں اور اگر افغانستان اور خطے کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مزید تعاون کریں تو یقیناً سب کو فائدہ پہنچے گا۔
محترم نمائندگان خصوصی؛
اس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات خطے سے باہر کے ممالک کی جانب سے افغانستان کی ترقی کے عمل کو متاثر کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں جو کہ افغانستان کی آزادی، علاقائی سالمیت اور قومی خودمختاری کی بنیادوں سے متصادم ہیں اور چونکہ خطے کے ممالک اس کا شکار ہوتے ہیں اور عدم استحکام اور پسماندگی کا سب سے زیادہ نقصان افغانستان کو ہوا ہے، لہذا توقع ہے کہ خطے کے ممالک بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر افغانستان کی نگراں حکومت کے تعاون سے اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے، تاکہ افغانستان میں عدم استحکام پیدا نہ ہو اور اس ملک کو ایک بار پھر غیر ملکی مداخلت کا اکھاڑہ نہ بننے دیا جائے۔
اسلامی جمہوریہ ایران، افغانستان کے امن، استحکام، قومی خودمختاری اور ارضی سالمیت کی ضمانت دینے والے تعمیری اقدامات کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ علاقائی استحکام اور سلامتی کے لیے اقوام متحدہ کو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرزِ فکر کی بنیاد پر اسلامی ریاست ایران نے گزشتہ تین سالوں میں افغانستان کے عوام کی تکالیف کو کم کرنے کی کوشش کی اور عبوری دور کے مشکل حالات کو سمجھتے ہوئے ماہرین کے لیے کوئی راستہ نکالنا ممکن ہوا تاکہ اس پڑوسی سرزمین کے لوگوں کو غیر ملکی قبضے اور عدم استحکام کے دور میں آنے والی مشکلات اور مصائب پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔
آخر میں، ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران میں ممالک کے خصوصی نمائندوں کی موجودگی کو سراہتے ہوئے خوشگوار قیام کی امید کرتا ہوں۔