مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین ٹی وی چینل کے حوالے سے بتایا ہے کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے بیروت کے جنوبی مضافات میں ایران کے شہید صدر اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: مزاحمت اور آزادی کی سالگرہ نزدیک ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران میں ہیلی کاپٹر حادثے میں ایران کے صدر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے ہمیں سوگوار بنا دیا۔ لہٰذا، ہم نے یوم آزادی کی تقریبات نہ منانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایک بار پھر ایران میں ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہونے والوں کے خاندانوں او سوگواروں کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔ شہید رئیسی کا ہیلی کاپٹر حادثہ ایران اور عالمی سطح پر انتہائی دردناک اور افسوسناک واقعہ تھا جس نے ہمیں سوگوار بنا دیا۔
لیکن ایران 1979 میں اسلامی انقلاب کی فتح سے لے کر اب تک ان خطرات اور چیلنجوں کا مقابلہ نہایت دلجمعی سے کرتا آرہا ہے۔
حسن نصراللہ نے واضح کیا کہ ہمیں ہمیشہ اپنے راستے میں رول ماڈل اور پیشرو کی ضرورت ہے کیونکہ رول ماڈل کے بغیر ہمارے عقائد اور نظریات صرف خیالات اور تحریروں کے طور پر باقی رہ جائیں گے، شہید رئیسی اپنی زندگی کے تمام مراحل میں اور جو ذمہ داریاں انہوں نے قبول کیں، ایک بہترین نمونہ عمل تھے۔
شہید رئیسی نے خادم الرضا کا لقب اختیار کیا، آستان قدس رضوی کی تولیت بہت بڑی ذمہ داری ہے، شہید نے جب چارج سنبھالا تو حرم کے انتظام و انصرام اور دیگر خدمات میں بڑی تبدیلیاں کیں جس سے پسماندہ اور غریب طبقے کو فائدہ پہنچا۔
سید مزاحمت نے مزید کہا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد سے ایران اقتصادی ناکہ بندی، عالمی پابندیوں اور داخلی دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس لیے جب ایران کا ہر صدر ذمہ داری سنبھالتا ہے تو وہ اپنے سامنے بہت بڑے مسائل کو پاتا ہے جن میں اقتصاد، کرنسی، مہنگائی اور خارجہ پالیسی کے مسائل شامل ہیں اور یہ پابندیوں اور ناکہ بندی کی وجہ سے ہیں۔
شہید رئیسی کی حکومت میں ضرورت مند خاندانوں کے لیے مکانات کی تعمیر کے لئے زمین کے 1 لاکھ 785 ہزار قطعات مختص کئے گئے اور تیل کی پیداوار 3 لاکھ 500 ہزار بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہید رئیسی کی حکومت میں غریب خاندانوں کو مفت پانی اور بجلی دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اقتصادی ترقی کی شرح 6 فیصد تک پہنچ گئی۔ شہید رئیسی کے دور میں مشرق و مغرب سے رشتہ ایک حد تک برقرار رہا۔ بین الاقوامی اداروں میں موجودگی اور کورونا سے نمٹنا ان کے دور کی نمایاں خصوصیت ہے۔
رئیسی نے جب صدارت کا عہدہ سنبھالا تو ہر سطح پر مزاحمتی تحریکوں کی کھل کر حمایت کی اور اس میدان میں ان کا عزم پختہ تھا۔
نصراللہ نے واضح کیا: شہید رئیسی فلسطین کاز، مزاحمت اور مزاحمتی تحریکوں پر بہت یقین رکھتے تھے اور صیہونیوں کے ساتھ ان کی دشمنی شدید تھی۔ شہید رئیسی کے دور میں ہم نے ایران کی سفارتی موجودگی اور ایران کے پڑوسی ممالک اور مشرقی بلاک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دینے میں تبدیلی دیکھی۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے ایران کے وزیر خارجہ شہید عبد الہیان کے بارے میں کہا کہ شہید امیر عبداللہیان لبنان، فلسطین اور مزاحمتی تحریکوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے اور یہ ان کی شخصیت کی خصوصیات میں سے تھی۔ ہم نے شہید رئیسی اور امیر عبداللہیان کی طرف سے مدد، حمایت، محبت کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور اس کے لیے ہم ان کے بے حد مشکور ہیں۔ ان دونوں کرداروں کی سب سے اہم خصلت عاجزی تھی۔ ان میں غریبوں سے محبت اور احترام پایا جاتا تھا اور یہ مکتب اسلام، پیغمبر اکرم (ص) اور امام خمینی (رح) کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ اسی طرح شہید آل ہاشم ایک مجاہد او دیانت دار عالم دین تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایران ایک مضبوط ملک ہے، جو اس ملک کے صدر اور ممتاز شخصیات کی شہادت سے سوگوار ہوا لیکن اس واقعے نے ایران کو کمزور یا متزلزل نہیں کیا۔ ایران اداروں اور قانون کی حکومت کا نام ہے اور ایک حکیم اور بابصیرت رہبر اس ملک کو چلا رہا ہے، ایرانی عوام میں قوت ارادی اور خود اعتمادی بھی قابل تعریف حد تک پائی جاتی ہے۔ یہ خصوصیات اسلامی جمہوریہ کے وژن اور دین کا حصہ ہیں اور یہ حکام کے جانے سے تبدیل نہیں ہوتیں اور یہ ایک طے شدہ اصول ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے 1979سے مزاحمتی تحریکوں کی حمایت جاری رکھی ہے اور اس حمایت میں اضافہ ہوا ہے اور یہ علی الاعلان اور عوامی سطح پر کیا گیا ہے۔