صدر کے دفتر کے سربراہ اسماعیلی نے کہا کہ شہید صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو حادثے کے بعد تین سے چار مرتبہ آیت اللہ آل ہاشمی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی جبکہ شہید صدر سمیت دیگر افراد موقع پر شہید ہوگئے تھے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر کے دفتر کے سربراہ غلام حسین اسماعیلی نے کہا ہے کہ مختلف صوبوں کے دورے کے دوران عام طور پر شہید صدر رئیسی کے ہمراہ میں بھی جاتا تھا۔ تین دن پہلے ہم ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر تہران سے تبریز روانہ ہوگئے۔ صبح سات بجے منزل پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد ہیلی کاپٹر کے ذریعے میگاپروجیکٹ کے افتتاح کے لئے چلے گئے۔

پہلے آق بند میں ایک پروجیکٹ کا دورہ کیا اور صبح نو بجے قیز قلعہ سی ڈیم کے افتتاح کے لئے گئے جوکہ ایران اور آذربائیجان کا مشترکہ پروجیکٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک گھنٹے تک سفارتی ملاقات جاری رہی اور نماز ظہر پڑھی۔ علاقے کے عوام کی درخواستوں کا جواب دیا گیا۔ دوپہر ایک بجے موسم مکمل صاف تھا۔ تبریز کی طرف پرواز شروع ہوگئی۔

اسماعیلی نے کہا کہ پرواز کے 45 منٹ بعد فضا میں بادل کے ٹکڑے نظر آئے اور فضا میں پھیلنا شروع ہوا۔ پرواز کی بلندی اتنی کم تھی کہ ہیلی کاپٹر بادلوں میں چلاگیا۔ اس وقت شہید صدر رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے دوسرے پائلٹوں سے رابطہ کرکے پرواز کو بلندی پر لے جانے کی ہدایت کی۔ تقریبا 30 سیکنڈ پرواز کرنے کے بعد متوجہ ہوا کہ شہید صدر رئیسی کا ہیلی کاپٹر موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد صدر کا ہیلی کاپٹر نظر نہیں آیا۔ ہماری پروازیں معمول کے مطابق تھیں اور سفر جاری رکھا اور بادل بھی فورا ختم ہوگئے۔

اسماعیلی کے مطابق صدر کا ہیلی کاپٹر نہیں آیا اس لئے ہمارے پائلٹ نے دوبارہ چکر لگایا۔ میں پوچھا تو بولا کہ اصلی ہیلی کاپٹر نہیں آیا ہے۔ میں نے پوچھا آخری مرتبہ ریڈیو پر کب رابطہ ہوا تھا؟ کہا کہ ایک منٹ تیس سیکنڈ پہلے ہوا تھا۔ واپس جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بادل والے علاقے میں نیچے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ بادل کے نیچے جانے کا امکان نہیں تھا۔ ریڈیو پر رابطے کی جتنی کوشش کی گئی بے سود ثابت ہوئی۔ چند منٹ بعد معدن مس سونگون کے علاقے میں ہم نے لینڈ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا۔

اسماعیلی نے مزید کہا کہ جب تک ہم فضا میں تھے، سگنل آرہا تھا جبکہ درے میں سگنل نہیں آرہا تھا۔ صدر کے ساتھیوں کے ساتھ کئی مرتبہ رابطے کی کوشش کی گئی لیکن کسی نے بھی جواب نہیں دیا۔ وزیرخارجہ اور سیکورٹی چیف سے بھی رابطہ کیا گیا۔ ہمارے ہیلی کاپٹر میں بذرپاش اور محرابیان بھی سوار تھے۔ ہماری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ پرواز کے عملے کے مطابق پائلٹ مصطفوی سے رابطہ کیا گیا تو آیت اللہ آل ہاشم نے جواب دیا کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے اور درے کے اندر گر گئے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ اس کے بعد دوبارہ اسی نمبر پر رابطہ کیا گیا اور پوچھا کہ آپ کیسے ہیں؟ تو جواب دیا کہ میری حالت ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ نہیں جانتا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ آیت اللہ آل ہاشم نے کہا کہ ہم درختوں کے درمیان ہیں۔ ساتھیوں کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ میرے اطراف میں کوئی نہیں ہے۔ صرف جنگل ہے۔

اسماعیلی کے مطابق ہمیں اسی وقت یقین ہوگیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کو سانحہ پیش آیا ہے۔ معدن مس سونگون میں ایمبولینس کی سہولت تھی۔ فوری طور پر جائے سانحہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

اس وقت تک تین سے چار مرتبہ آیت اللہ آل ہاشم سے بات ہوئی تھی۔ وہ سانحے کے تین گھنٹے بعد تک جواب دے رہے تھے اس کے بعد جواب نہیں دیا۔ سانحے کی جگہ کا کھوج لگانے کے بعد معلوم ہوا کہ شہید صدر رئیسی اور دیگر شہداء سانحے کے فورا بعد دم توڑ چکے تھے لیکن آقای آل ہاشم کئی گھنٹے تک زندہ تھے۔ اوپر سے دیکھا تو نہ دھماکے کی آواز سنی نہ دھوئیں اور آگ دکھائی دی۔ کچھ افراد کو دیہاتیوں کے پاس بھیجا لیکن کسی نے نہ کچھ دیکھا تھا اور نہ ہی کوئی آواز سنی تھی۔ اس علاقے میں جنگل ہے۔ ایک دیہات ہے جس میں کوئی نہیں رہتا ہے۔

صدر کے دفتر کے سربراہ نے مزید کہا کہ جب آیت اللہ آل ہاشم بات کرتے تھے تو زخموں کی وجہ سے ان حالت ٹھیک نہیں لگتی تھی۔ حادثے کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ جب ہمارا ہیلی کاپٹر نیچے اترا تو دو گھنٹے تک موسم صاف تھا۔ اس کے بعد اچانک موسم تبدیل ہوا۔ جب ہلال احمر اور فوج کی ٹیمیں جائے وقوعہ کو ڈھونڈنے لگیں تو فضا میں دھند پھیل گئی۔ شروع میں ہمارے علاوہ مس سونگون کے لوگ تلاشی کا کام کررہے تھے۔ دوسری ٹیموں کے آنے تک وقت لگا۔ میڈیا اور ویڈیوز میں ابرآلود فضا اور دھند کے مناظر حادثے کے کئی گھنٹے بعد کے ہیں۔

موسم خراب ہونے کے باوجود صدر کی ٹیم کو ہیلی کاپٹر میں جانے کی اجازت دینے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے اسماعیلی نے کہا کہ میں موسمیات کا ماہر تو نہیں ہوں تاہم اب تک متعدد مرتبہ ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کا تجربہ رکھتا ہوں اسی کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ پرواز معمول کے مطابق تھی اور سفر کے دوران محدود جگہ پر بادل کا ٹکڑا موجود تھا البتہ ایسی صورتحال میں پرواز کی اجازت دینی چاہئے یا نہیں؟ اس بارے میں ماہرین بہتر بتاسکتے ہیں۔ میں نے صرف جو دیکھا وہی بولا ہے۔

انہوں نے کہا کہ متعدد مرتبہ سفر کے دوران اچانک موسم بدلنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ شہید صدر رئیسی دوسروں سے اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ سفر کرنا چاہئے یا نہیں؟ زمینی راستے سے لوٹنا چاہئے یا نہیں؟ شہید صدر عام طور پر عملے سے کہا کرتے تھے کہ سفر کے قوانین کا خیال رکھیں؛ اگر ہوائی سفر کی اجازت نہیں ہے تو زمینی راستہ اختیار کریں گے۔

اسماعیلی نے کہا کہ آیت اللہ رئیسی نے کئی مرتبہ پہلے جہاز میں سفر کیا لیکن واپسی پر خراب موسم کی وجہ سے زمینی راستے سے واپس لوٹے تھے۔ بعض اوقات رات کو مشہد کا زمینی سفر کرتے تھے اور تہران میں کام کی وجہ سے جہاز میں واپس آتے تھے۔ وہ جب تک ضرورت نہ ہو خصوصی طیارے کا استعمال نہیں کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد امدادی ٹیموں نے رات کے اندھیرے میں بھی ہر ممکن سہولت سے استفادہ کرتے ہوئے تلاشی کے عمل میں حصہ لیا۔ اس کاروائی میں حصہ لینے والوں کا دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ میں خود شہداء کی لاشیں ملنے تک علاقے میں موجود تھا لیکن موسمی حالات کی وجہ سے اس سے زیادہ تلاش کرنا ممکن نہیں تھا۔ شہید صدر کے ہیلی کاپٹر میں سوار افراد میں سے فقط آیت اللہ آل ہاشم کچھ گھنٹے زندہ رہے جبکہ شہید صدر سمیت دوسرے افراد حادثے کے فورا بعد شہید ہوگئے تھے۔