مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ رفح شہر غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع ایک تاریخی شہر ہے جو کہ 5 ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ یہ علاقہ مصر کی سرحد کے قریب واقع ہے جو غزہ سے دنیا کے لئے ایک زمینی گزرگاہ سمجھا جاتا ہے۔ صیہونی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی کی لائن پر ہونے کی وجہ سے رفح کو خطے میں ایک اسٹریٹجک اور حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
غزہ جنگ کے دوران اس اسٹریٹجک علاقے کی اہمیت کا ایک اور پہلو غزہ کے مختلف علاقوں سے لاکھوں باشندوں کی اس شہر کی طرف ہجرت ہے۔ حالیہ جنگ سے قبل اس علاقے کے اصل مکینوں کی تعداد دو لاکھ ساٹھ ہزار تھی لیکن اس وقت اس علاقے میں 1 میلین چار لاکھ سے زائد فلسطینی پناہ گزین ہیں جو بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور صیہونی حکومت کے زمینی حملے نے ان کی آبادی کو مزید متاثر کیا ہے۔ جس سے روزی روٹی اور سیکورٹی کی صورتحال مزید مشکل ہو جائے گی۔
فوجی کارروائیوں کے لئے رفح کا چیلیجنگ جغرافیہ
رفح شمال سے خان یونس، جنوب سے مصر، مغرب سے بحیرہ روم تک اور مشرق سے گرین لائن کے نام سے جانے والے علاقے کی طرف جاتا ہے، جو کہ 1967 کے فلسطینی علاقوں کے درمیان سرحد ہے۔
یہ علاقہ سطح سمندر سے صرف 48 میٹر کی بلندی پر ہے اور اس کا بیشتر حصہ ساحلی پٹی ہے اور ساتھ ہی یہ صحرائے سینا کے قرب و جوار میں واقع ہے جہاں صیہونی حکومت نے اس علاقے کو غزہ کے لوگوں کے لیے متبادل وطن کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مصر اور غزہ کے باشندوں اور دیگر عرب اور اسلامی ممالک نے اس کی مخالفت کی۔
رفح شہر 10 محلوں اور چھوٹے حصوں پر مشتمل ہے، جو کہ درج ذیل ہیں: المواصی، تل السلطان، شہر کا مرکز، الحشاش علاقہ، مغربی رفح، النخلہ، خربت العدس، حی السلام، الجنینہ اور البیووک۔ اس علاقے کا رقبہ صرف 63 مربع کلومیٹر ہے۔
اس خطے کی آب و ہوا صحرائی ہے اور اس میں طویل اور مرطوب گرمیاں جب کہ سرد اور خشک سردیاں ہوتی ہیں۔ اس خطے میں گرمیوں میں اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری ہوتا ہے۔
رفح پر اسرائیل کی غیر انسانی جارحیت اور عالمی برادری میں غم و غصے کی لہر
غزہ کے لوگوں کی اشہ رگ حیات کے طور رفح کو اسٹریٹجک اہمیت حاصل وجہ ہے۔ رفح کراسنگ اس علاقے کے تقریباً دو دہائیوں کے محاصرے کے دوران غزہ کی چند فعال گزرگاہوں میں سے ایک تھی۔
بین الاقوامی حلقوں اور عالمی برادری کے ارکان کی اکثریت حتی مغربی ممالک نے اس شہر میں زمینی فوجی کارروائیوں کے آغاز کو غیر معمولی انسانی آبادی کی وجہ سے ایک المیہ قرار دیا ہے۔
یہاں تک کہ تل ابیب کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک کا بھی خیال ہے کہ اس آپریشن کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافے سے صیہونی حکومت کے خلاف عالمی ردعمل میں شدت آئے گی اور یہ مسئلہ تل ابیب کے لئے خطرناک تباہ کن ہو سکتا ہے۔ دیگر ممالک نے بھی اس خطے میں شہریوں کی ممکنہ ہلاکتوں کے غیر معمولی حجم کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
رفح میں مزاحمتی گروہ بھرپور جنگی صلاحیتوں کے ساتھ تیار بیٹھے ہیں
عسکری اور تزویراتی امور کے ماہر بریگیڈیئر کریم الفالحی نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ رفح میں فوجی کارروائی اسرائیلی رجیم کے لئے آسان نہیں ہو گی، کیونکہ اس علاقے میں مزاحمتی فورسز موجود ہیں اور وہ اپنی تمام تر جنگی صلاحیتوں اور سہولیات کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
صہیونی فوج کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق رفح میں مزاحمتی گروہوں سے وابستہ چار بٹالینز ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزہ میں ماضی کے تنازعات میں شامل نہیں رہیں اور اپنی افرادی قوت اور فوجی سازوسامان کے لحاظ سے پوری طرح تیار ہیں۔ اس کے علاوہ یہ فورسز ایسے ماحول میں لڑیں گی جس سے وہ پوری طرح واقف ہوں گی جب کہ رفح کے سرنگوں کا وسیع نیٹ ورک بھی ان کی مدد کرے گا۔
غزہ کے دیگر علاقوں میں صہیونی فوج کی شکست کا تجربہ بھی اس آپریشن کی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ماضی کی جھڑپوں میں صہیونی دشمن کے 1300 فوجی ایمونیشنز تباہ ہوچکے ہیں اور قابض فوج خان یونس سے پسپائی پر مجبور ہوگئی ہے۔
الجزیرہ نے عسکری امور کے اس ماہر کا حوالہ دیتے ہوئے مزید بتایا ہے کہ ان مسائل کے علاوہ صیہونی فوج جنگی مورال کھو کر بری طرح شکست و ریخت کا شکار ہوچکی ہے اور ماضی کے تنازعات میں اسے بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
الفلاحی نے مزاحمتی گروہوں کے درمیان وسیع ہم آہنگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان گروہوں کا مشترکہ آپریشن روم تشکیل دیا گیا ہے اور ان کے درمیان بہت اعلیٰ سطح کی ہمآہنگی پائی جاتی ہے۔