نیویارک میں صیہونیت مخالف ممتاز یہودی پروفیسر نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جھوٹے بچھڑے کی پوجا کے تاریخی واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے صیہونیت کو جدید دور کا جعلی بت اور جارح حکومت قرار دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت اور صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت میں طلباء کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، ایسے میں معروف صیہونیت مخالف یہودی شخصیات بھی امریکہ میں طلبہ تحریک میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے صیہونی رجیم کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں شریک ہو رہی ہیں

رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی یہودی یونیورسٹی کی پروفیسر، مصنف، صحافی اور سماجی کارکن نومی کلین نے نیویارک شہر میں صیہونی رجیم کے خلاف جنگ کے حامیوں کے درمیان اپنی تقریر میں غزہ کی پٹی میں حکومت کے جرائم پر ردعمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے صیہونی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے یہودی تعلیمات کے مطابق اس جارح اور جرائم پیشہ حکومت کی منافقت کو برملا کیا۔

نومی کلین نے فلسطین کے امریکی حامیوں سے کئے گئے حالیہ خطاب میں کہا کہ میں حضرت موسیٰ اور ان کی ناراضگی کے بارے میں سوچتی ہوں کہ وہ جب وہ پہاڑ (طور) سے5 نیچے آے اور اسرائیلیوں کو سونے کے بچھڑے کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا تو آزردہ خاطر ہوئے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ خودساختہ اور کھو کھلے بتوں کے بارے میں ایک سبق آموز نصیحت ہے۔" ہمارے بہت سے لوگ ایک بار پھر جھوٹے بتوں کی پوجا کرنے لگے ہیں جو انہیں بری طرح آلودہ کر رہے ہیں۔صیہونیت ان جھوٹے بتوں میں سے ایک ہے۔ یہ فوجی رجیم زمینوں پر قبضے، نسلی تطہیر اور نسل کشی کی مرتکب ہوئی ہے۔