مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکہ کی یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے قانون کے ممتاز پروفیسر جوڈی آرمر نے تہران ٹائمز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اس ملک کی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلباء کو خاموش کرنے کے لئے استعمال میں لائے جانے والے پرتشدد طریقوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے یونیورسٹیوں کے سکیورٹی ماحول سے پردہ اٹھایا۔
وہ طلباء جنہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ امریکی یونیورسٹیوں کے کیمپس میں خیمے نصب کئے انہیں بڑے پیمانے پر سخت اور منفی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں توہین، بے دخلی، معطلی، جسمانی تشدد اور گرفتاری شامل ہے۔ اس کے علاوہ، کیمپس میں طلباء کو پولیس کے تشدد سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ پروفیسروں کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
پروفیسر آرمر نے تہران ٹائمز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے امریکی حکومت کی طرف سے آزادی اظہار کے حق کی صریح خلاف ورزی پر تنقید کی ذیل میں اس گفتگو کی تفصیلات ملاحظہ ہوں۔
تہران ٹائمز: سیاست دانوں اور یونیورسٹی حکام نے فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں احتجاج کرنے والے طلباء پر یہود دشمنی کا الزام لگایا ہے۔ کیا آپ اس نقطہ نظر سے متفق ہیں؟
پروفیسر آمر: بالکل بھی نہیں. یہ طلبہ کے خلاف ایک غیر حقیقی اور غیر منصفانہ الزام ہے۔ میں وہاں موجود تھا اور طلباء سے کئی بار بات کی۔ ان میں سے بہت سے یہودی ہیں، اور ان کے درمیان تمام قسم کے مذہبی عقائد رکھنے والے دوسرے طلباء بھی موجود ہیں۔ میں خود کیتھولک ہوں۔ بچوں کے قتل عام اور یہود دشمنی کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ صیہونیت کی مخالفت کو یہود دشمنی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ طلباء محض جنگ کے خلاف ہیں، اور ان پر یہود دشمنی کے الزامات انہیں خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے طلباء کی سرگرمیاں مزید تیز ہوں گی اور وہ امن کی مضبوطی سے حمایت کے لیے مزید پرعزم ہوں گے۔
ہم ان طالب علموں کو یہ سکھانے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں کہ وہ آزادانہ طور پر کیسے سوچیں، اور جب وہ اپنی سیکھی ہوئی باتوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں، تو ہم ان پر دباؤ ڈالتے ہیں! اس کے علاوہ طلبہ کو دبانے کا جواز پیش کرنے کے لیے "لوگوں اور راہگیروں پر حملے" اور "یونیورسٹی کی اہم عمارتوں کو بلاک کرنے" جیسے دیگر جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں۔ بلاشبہ جو لوگ احتجاج میں شریک ہوتے ہیں وہ ان الزامات کو واضح طور پر جھٹلاتے ہیں۔ ایک گواہ کے طور پر، میں مظاہرے کے دوران طلباء کے پرامن اور احترام پر مبنی برتاؤ کی گواہی دے سکتا ہوں۔
یونیورسٹی نے پولیس سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے طلباء کی معطلی یا اخراج جیسے دیگر اقدامات کئے ہیں۔ کیا اساتذہ خاموش رہنے پر مجبور ہوئے ہیں؟
ذاتی طور پر، ایک استاد کی حیثیت سے، اگر میں انتظامیہ کو خوش کرنے کے لئے کوئی ایسی بات کہوں تو میں ان کے دباؤ سے محفوظ رہوں گا۔ لیکن آپ کے سوال کے جواب میں، یہ ضرور کہوں گا کہ ایک طرح کا غیر محسوس دباؤ ہے جو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کو انتظامیہ کے موقف کی پیروی کرنے پر مجبور کر دیتا ہے!
ہمیں جو پہلا خطرہ درپیش ہے وہ براہ راست یونیورسٹی کی مرکزی انتظامیہ سے نہیں بلکہ کیمپس میں پولیس بھیجنے کے ان کے فیصلے سے ہے۔ چنانچہ کولمبیا یونیورسٹی کے سربراہ نے پولیس کو یونیورسٹی میں لانے میں پیش قدمی کی، یوں دیگر یونیورسٹیوں نے بھی ان کی پیروی کی۔ تاہم، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سمیت کچھ یونیورسٹیوں نے اس اقدام کے خلاف مزاحمت کی اور ان کے اعلی حکام اور انتظامیہ نے پولیس فورسز کو استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ قانونی اعتبار سے سیکورٹی فورسز ڈین کی براہ راست اجازت کے بغیر کبھی بھی یونیورسٹی کی عمارتوں میں داخل نہیں ہو سکتیں۔
یہ فیصلہ نہ صرف فیکلٹی ممبران کے خلاف ہے بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ طلبہ کے ساتھ زیادتی بلکہ خیانت ہے۔
اگرچہ حکام مسلسل یونیورسٹیوں کے دوستانہ ماحول پر زور دیتے ہیں، لیکن وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ بدسلوکی کے لیے جبر کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں!
یونیورسٹی کا دعویٰ ہے کہ وہ "طلبہ پر مبنی" ہے، لیکن جب طلباء شہریوں کے وحشیانہ قتل کے خلاف پرامن احتجاج کرتے ہیں، تو فسادی پولیس لاٹھیوں، ہتھکڑیوں اور کالی مرچ کے اسپرے سے لیس ہو کر ان کے پاس پہنچ جاتی ہے!
ایسے میں کیا ہم منافقت کے بغیر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان طلباء کو تعلیمی شعور اور تربیت فراہم کی جارہی ہے؟
غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے، مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ نے مسلسل اسرائیل کے حامی بیانیے کو پھیلایا۔ امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں نے بھی ایسا ہی موقف اپنایا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے طلباء فلسطین کے حالات کی حقیقت کو سمجھنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟
بہت سی امریکی یونیورسٹیوں کو اسرائیل نواز عطیہ دہندگان کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ لوگ اسرائیل پر کسی بھی قسم کی تنقید کو ناقابل قبول سمجھتے ہیں اور یہ مسئلہ ان اداروں کی نگرانی پر مکمل حاوی ہے۔ درحقیقت سچ یہی ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں کا انتظام اسی طرح (اسرائیل نوازی کی شرط پر)ہوتا ہے اور ہمیں اسے تسلیم کرنا چاہیے۔
تاہم، تعلیمی ماحول میں صیہونیت کے حامی بیانیے کے سامنے آنے کے باوجود، امریکی یونیورسٹی کے طلباء نے سوشل میڈیا خاص طور پر ٹک ٹاک اور کچھ حد تک ایکس کے ذریعے آزادانہ سوچ حاصل کی ہے۔
ان پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے، نوجوان نسل سرکاری بیانیے کو "ناکام بنانے" میں کامیاب ہو گئی۔ اسی وجہ سے امریکی حکام فی الحال TikTok پر پابندی لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ معلومات کے متبادل ذرائع تک نوجوانوں کی رسائی کو محدود کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔تاکہ ان کی اسرائیل نوازی کی پالیسی اور ذرائع ابلاغ پر اجارہ داری قائم رہ سکے۔
نسلی مساوات کے حامی ایک معروف وکیل کے طور پر، کیا آپ کو امریکی کیمپس میں موجودہ مظاہروں اور افریقی-امریکی حقوق کی حمایت میں پچھلی تحریکوں کے درمیان کوئی مماثلت نظر آتی ہے؟
فلسطین کی حمایت میں اس تحریک میں حصہ لینے والے بہت سے طلباء کی عمریں 10 سے 13 سال کی تھیں جب بلیک لائیوز میٹر تحریک شروع ہوئی۔ آج کے ان نوجوانوں اور کل کے نوعمروں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جبر اور محروم گروہوں کے خلاف منظم تشدد کا سامنا کرتے ہوئے حکام کو چیلنج کرنا بہت ضروری ہے۔ "بلیک لائیوز میٹر" تحریک کے دوران، افریقی نژاد امریکی محروم گروہ تھے، اور آج کی تحریک میں، فلسطین کی حامی محروم کمیونٹی ہے اور ایک بار پھر، انصاف کے متلاشی مظاہرین کو پولیس کے پرتشدد ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔
تاریخی طور پر، نسلی مساوات کے حقوق کے حامیوں نے بھی اپنی جد و جہد کو جنگ کے خاتمے کے خلاف جاری رکھا۔ مثال کے طور پر مارٹن لوتھر کنگ نے بھی ویتنام جنگ کے بارے میں کھل کر بات کی اور اس کے خاتمے کی حمایت کی۔