مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ رمضان المبارک کے گیارہویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اے معبود! آج کے دن نیکی کو میرے لئے پسندیدہ فرما دے اس میں گناہ و نا فرمانی کو میرے لئے ناپسندیدہ بنا دے اور اس میں غیظ و غضب کو مجھ پر حرام کر دے اپنی حمایت کے ساتھ اے فریادیوں کے فریاد رس۔
اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ فِیْہِ الْاِحْسَانَ وَكَرِّہْ اِلَیَّ فِیْہِ الْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ وَحَرِّمْ عَلَیَّ فِیْہِ السَّخَطَ وَالنِّیْرَانَ بِعَوْ نِكَ یَا غِیَاثَ الْمُسْتَغِیْثِیْن
احسان کے معنی
عام طور پر احسان نیک کام کرنے کو کہتے ہیں للیکن بعض اوقات اس سے وسیع تر معنی میں استعمال کیا جاتا ہے جس میں ہر عمل صالح بلکہ عمل صالح کی خواہش بھی شامل ہے۔ احسان عدالت سے بڑھ کر ہے کیونکہ عدالت اپنا حق لینے اور دوسرے کا حق ادا کرنے کو کہتے ہیں جبکہ احسان دوسرے کا حق ادا کرنے اور اپنے حق سے کم لینے کو کہتے ہیں۔
بعض مفسرین کے مطابق اللہ کی اطاعت کرن احسان ہے جبکہ بعض کے مطابق دشمن کی اذیتوں کے مقابلے صبر کرنے کو احسان کہتے ہیں۔
احسان اور انفاق کی بخل اور کنجوسی پر فضیلت
اسلامی تعلیمات کے مطابق بخل بری صفت شمار ہوتی ہے اس کے مقابلے میں احسان اچھی صفت ہے۔ احسان انسانی تکامل کا بالاترین مرحلہ ہےاسی لئے روایات میں احسان یقین کے ساتھ اللہ کی بندگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی اس طرح عبادت کرو جیسے اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہو۔ ظاہر ہے جو شخص اس طرح عبادت کرتا ہے نہ فقط اس کی عبادت ارزشمند ہے بلکہ اس کا اثر اس کے اعضاء و جوارح سے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔
احسان کے مقابلے میں بخل اس حد تک انسان کو گرادیتا ہے کہ دوسروں کے لئے مال خرچ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے بلکہ بعض بخل میں اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ دوسروں کے مال پر بھی بخل کرتے ہیں اور جب کسی کو انفاق کرتے دیکھتے ہیں تو ناراض ہوتے ہیں۔
اس بھی بدتر مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے لئے مال خرچ کرنے سے کنجوسی کرتا ہے یہ بخل کی عجیب ترین اور بدترین مثال ہے۔ بعض لوگ اپنے بخل کو چھپانے کے لئے بہانہ تراشی کرتے ہیں چنانچہ فضول خرچی اور ریا سے بچنے کا عذر پیش کرتے ہیں یا فقیر کو دیکھ کر اس کے مستحق ہونے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام قبیح ترین بخل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مالی واجبات ادا کرنے میں بخل کرنا قبیح ترین بخل ہے۔
اس دعا میں احسان سے مراد یہ ہے کہ انفاق کے ساتھ مستحقین کے ساتھ اچھا سلوک بھی کرے اس طرح کہ ہمیشہ کشادہ روئی اور مہربانی کے ساتھ انفاق کرے۔ انفاق کے بعد منت گزاری سے گریز کرے۔
وَكَرِّہْ اِلَیَّ فِیْہِ الْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اس میں گناہ و نا فرمانی کو میرے لئے ناپسندیدہ بنا دے
فسق سے کیا مراد ہے؟ فاسق کون ہے؟
فسق لغت میں کھجور کے اندر سے گٹھلی کے نکلنے کو کہتے ہیں۔ اس معنی میں توسیع کے بعد اللہ کی بندگی سے نکلنے کو فسق کہا گیا حقیقت میں جس طرح کھجور کی گٹھلی باہر آنے سے کھجور کے اندر کی شیرینی اور امن سے محروم ہوجاتی ہے اسی طرح فاسق انسان بھی اللہ کی بندگی سے نکلنے کے بعد اطمینان اور سکون کو کھودیتا ہے۔ بنابراین اللہ کی اطاعت اور بندگی چھوڑنے والے کو فاسق کہا جاتا ہے چنانچہ شیطان کو بھی فاسق کہا گیا ہے فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ پس اس نے اللہ کے فرمان کی مخالفت کی۔
گناہ سے بیزاری کی ضرورت
گناہ ذاتی طور پر انسان کے لئے منفور ہوتا ہے لیکن جب کوئی اس کا ارتکاب کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کی نفرت ختم ہوجاتی ہے۔ بدی سے دلی نفرت کی وجہ سے انسان گناہ سے دور رہتا ہے لیکن جب دلی نفرت ختم ہوجائے تو گناہ کے نزدیک ہوجاتا ہے اور گناہ گاروں کی صف میں شامل ہوتا ہے۔ بلکہ ایسا مرحلہ آتا ہے کہ گناہ گار کے سامنے برے اعمال خوبصورت بن جاتے ہیں گویا گناہ کی محبت انسان کو اندھا کردیتی ہے چنانچہ روایت میں ہے کہ «حبُّک للشَّیء یُعمی و یُصم» محبت انسان کو اندھا اور گونگا بنادیتی ہے اس طرح گناہ گار کی نظر میں اچھی چیز بری اور بری چیز اچھی بن جاتی ہے۔
گناہ کے عوام اور اسباب زیادہ ہیں اور پرکشش بھی لہذا ان سب کے سامنے استقامت کرکے اللہ کی معصیت میں مبتلا نہ ہونا آسان کام نہیں۔ اگر انسان کے اندر گناہ سے نفرت کا احساس نہ ہوتو گناہوں کی لذت اور کشش انسان کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ بسا اوقات انسان 70 ستر عبادت کرنے کے بعد گناہ کی کشش کا شکار ہوکر برے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔
گناہ ترک کرنے اور برے کاموں سے دوری کے نتیجے میں تقوی حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے: «لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ» اگر شکر کروگے تو میں یقینا اضافہ کروں گا۔ اس فرمان کے مطابق انسان کی مادی اور معنوی نعمتوں میں اضافہ ہوگا۔ حقیقی شکر یہی ہے کہ انسان اللہ کی نعمتوں کو اس کی اطاعت اور بندگی میں استعمال کرے اور اس کی نافرمانی سے بچے۔
دعا کے تیسرے حصے میں پڑھتے ہیں: وَحَرِّمْ عَلَیَّ فِیْہِ السَّخَطَ وَالنِّیْرَانَ اور اس میں غیظ و غضب کو مجھ پر حرام کر دے۔ آخرت کی مصیبت اور جہنم سے رہائی کے لئے دنیوی اسارت سے نجات پانا ضروری ہے دوسرے الفاظ میں گناہوں سے رہائی آتش دوزخ سے نجات کا وسیلہ ہے اسی طرح نفسانی خواہشات، شیطان پرستی، ظلم اور ظالم کی حمایت سے بھی دور رہیں تو جہنم کی آگ سے نجات مل سکتی ہے۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے لہذا ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں اپنی توانائی کے مطابق کوشش کرنا چاہئے اس کے بعد اللہ بھی اپنے وعدے کے مطابق ہمیں دوزخ کی آگ سے نجات دے گا۔