مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ رمضان المبارک کے نویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اے معبود! آج کے دن مجھے اپنی وسیع رحمت میں سے بہت زیادہ حصہ دے۔ اس میں مجھ کو اپنے روشن دلائل کی ہدایت فرما۔ اور میری مہار پکڑ کے مجھے اپنی ہمہ جہتی رضاؤں کی طرف لے جا اپنی محبت سے اے شوق رکھنے والوں کی آرزو۔
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لِیْ فِیْہِ نَصِیْبًا مِنْ رَحْمَتِكَ الْوَاسِعَۃِ وَاھْدِنِیْ فِیْہِ لِبَرَاھِیْنِكَ السّاطِعَۃِ وَخُذْ بِنَاصِیَتِیْ اِلٰی مَرْضَاتِكَ الْجَامِعَۃِ بِمَحَبَّتِكَ یَا ٲَمَلَ الْمُشْتَاقِیْنَ
اللہ کی رحمت اور برکت ہمیشہ زمین والوں پر نازل ہوتی ہے۔ ہمیں خودسازی اور پرہیزگاری کے ذریعے خود کو اس سے مستفید ہونے کا لائق بنانا چاہئے۔ رمضان میں اللہ کی رحمت سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے لہذا اس کا نام ماہ رحمت رکھا گیا ہے۔
قیامت کے دن جب اللہ اپنی رحمت کا دروازہ کھولے گا تو ابلیس بھی اس میں شامل ہونے کی تمنا کرے گا۔
اللہ تعالی نے حضرت داؤد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میری رحمت سورج کی طرح ہے جو کسی پر تنگ نہیں ہوتا ہے۔
نویں دن کی دعا کی ابتداء میں ہی اللہ سے اس کی رحمت کا سوال کرتے ہیں۔ اس بارے میں معاذ بن جبل کا سبق آموز واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ معاذ روتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رونے کی وجہ پوچھی تو جواب دیادروازے کے پیچھے سے ایک جوان کے رونے کی آواز سن کر میں بھی رونے پر مجبور ہوا۔ اگر آپ اجازت دیں تو وہ جوان آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میرے پاس لاؤ۔ جب جوان آیا تو اس سے رونے کی وجہ پوچھی۔ جوان نے کہا کہ کیسے گریہ نہ کروں میں نے ایسے گناہ کئے ہیں اگر اگر کسی ایک گناہ کی بھی سزا مجھے ملے تو میں جہنم میں جاوں گا اور ہرگز نہیں بخشا جاوں گا۔فرمایا: کیا تم مشرک ہو؟ جواب دیا : نہیں۔ فرمایا: کسی کو قتل کیا ہے؟ بولا: نہیں۔ فرمایا: خدا تیرے گناہوں کو معاف کرے گا اگرچہ زمین اور سات آسمانوں کے برابر کیوں نہ ہو۔ بولا: ان سب سے بھی میرا گناہ بڑا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: خدا تیرے گناہوں کو معاف کرے گا اگرچہ آسمانوں، ستاروں اور عرش و کرسی کی طرح ہوں۔ جوان نے کہا: میرا گناہ ان سب سے بھی بڑا ہے۔ اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غصے سے فرمایا: تیرے گناہ بڑے ہیں یا تیرا پروردگار۔ جواب دیا: یا رسول اللہ! میرا پروردگار ہر چیز سے بڑا ہے۔ اس وقت آپ نے فرمایا: کیا بڑے گناہ کو بڑی ذات کے علاوہ کوئی اور بخش سکتا ہے؟ کہا: نہیں۔
اللہ تعالی سورہ مجادلہ میں ارشاد فرماتا ہے: پس نماز قائم کریں اور زکات دیں اللہ اور اس کے رسول سے حکم لیں اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے آگاہ ہے۔
سورہ نمل میں ارشاد ہوتا ہے اللہ سے طلب مغفرت کیوں نہیں کرتے ہو تاکہ اس کی رحمت میں شامل ہوجاؤ۔
ان آیات کا نتیجہ یہ ہے کہ نماز قائم کرنا، زکات دینا اور اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ توبہ کرنا رحمت الہی کے اسباب ہیں۔
دعا کے دوسرے حصے میں پڑھتے ہیں کہ خدا یا اس دن مجھ کو اپنے روشن دلائل کی ہدایت فرما۔
اہل ایمان کی ایک تمنا ہدایت ہے۔ ایسی ہدایت جو ملنے کے بعد انسان کے دل میں کوئی شک اور شبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔ زمانے کی سختیاں اور مشکلات انسان پر اثراندازنہیں ہوتی ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسان مزید سخت جان ہوتا ہے۔
ہدایت الہی کا ایک سبب تفکر ہے۔ زمین و آسمان، دن رات، سمندر اور خشکی، ہوا اور بارش و بادل غرض ہر چیز اللہ تعالی کے ناقابل انکار وجود پر دلیل ہے۔ ان میں تفکر کرنے سے انسان ہدایت پاکر اپنے ہدف یعنی معرفت الہی تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی لئے عقل اور تفکر کو باطنی رسول کہا گیا ہے جس طرح انبیاء ظاہری رسول ہیں۔
دعا کے آخری حصے میں پڑھتے ہیں: اور میری مہار پکڑ کے مجھے اپنی ہمہ جہتی رضاؤں کی طرف لے جا اپنی محبت سے اے شوق رکھنے والوں کی آرزو۔
درحقیقت اس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں کہ انسان سے اس کا خالق اور معبود حقیقی راضی ہوجائے۔ اللہ تعالی سورہ مریم میں حضرت اسماعیل کے حوالے سے ارشاد فرماتا ہے کہ اس کا پروردگار ہمیشہ اس سے راضی رہتا تھا۔ اس آیت کے مطابق حضرت اسماعیل ہمیشہ اللہ کی رضایت کو مدنظر رکھتا تھا۔ سورہ مائدہ میں اللہ تعالی ان لوگوں کو بشارت دیتا ہے جو ہمیشہ خالق کی رضایت کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔ اس آیت کے مطابق ایسے لوگوں کو تین نعمتیں دی جائیں گی:
اول: سلامتی، فردی سلامتی، اجتماعی سلامتی، روح و جان کی سلامتی، خاندان کی سلامتی اور اخلاق کی سلامتی سب اس میں شامل ہیں۔
دوم: کفر اور بے دینی کے اندھیرے سے نکال کر ایمان کے نور کی طرف اس کی رہنمائی
سوم: نزدیک ترین اور مختصرترین راہ یعنی صراط مستقیم کی طرف ہدایت
یہ نعمتیں ان لوگوں کو ملتی ہیں جو اللہ کی بے پناہ طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔