مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ فروری 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد پہلوی دور کی مجلس شورائے ملی (قومی اسمبلی) کا نام تبدیل کر کے مجلس شورائے اسلامی رکھ دیا گیا اور ایرانی کیلنڈر کے اعتبار سے (10 آذر) آیت اللہ سید حسن مدرس کے یوم شہادت کو ملک کی پارلیمنٹ کا دن قرار دیا گیا ہے۔
گزشتہ چار دہائیوں میں اب تک پارلیمنٹ کے نمائندوں کے تعین کے لیے انتخابات 11 کے گیارہ دورے ہو چکے ہیں، جن میں سے بارہواں مرحلہ یکم مارچ 2024 کو ہوگا، جس میں چار سال کی مدت کے لیے 290 نمائندے منتخب کیے جائیں گے۔
پارلیمانی انتخابات کے لیے نامزدگی کی شرائط
انتخابی امیدواروں کے لیے عمومی شرائط کے ساتھ کچھ خاص شرائط کا ہونا بھی ضروری ہے۔ جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
اسلامی جمہوریہ ایران کی شہریت رکھتا ہو، کم از کم ایک درست ماسٹر ڈگری یا اس کے مساوی کا ہونا، سزا یافتہ نہ ہونا اور عمدی جرم کا ارتکاب نہ کرنا، سیاسی یا سماجی گروہوں یا پارٹیوں کا رکن نہ ہونا، انسانی سمگلنگ، ہتھیار، منشیات، سائیکو ٹراپک مادے یا منی لانڈرنگ وغیرہ میں ملوث نہ ہونا۔
اسلام پر ایمان اور اس کی پاسداری، اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام پر یقین، انقلاب کے نظریات اور ولایت مطلقہ فقیہ پر محکم ایمان او آئین پر یقین، پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے دیگر ضروری شرائط ہیں۔
پارلیمنٹ کے فرائض اور اختیارات
پارلیمنٹ کے پاس وسیع اختیارات اور فرائض ہیں۔ آئین کے چھٹے باب میں متعدد آرٹیکلز اس مسئلے سے متعلق ہیں۔
پارلیمنٹ کے اہم ترین فرائض اور اختیارات درج ذیل ہیں:
1- شورائے اسلامی کا سب سے اہم وظیفہ قانون سازی ہے۔ پارلیمنٹ کسی بھی شعبے میں ضروری سمجھے قانون بنا سکتی ہے۔
2- قانونی تجاویز دینے اور ان کا جائزہ لینے کا حق، نیز سرکاری بلوں پر نظرثانی کا حق
3- بہت اہم اقتصادی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل پر ریفرنڈم کی منظوری کا حق
4- کسی بھی قسم کے ٹیکس کا نفاذ نیز ٹیکس میں چھوٹ اور استثنیٰ کا تعین
5- ملک کے سالانہ بجٹ کی منظوری، جسے حکومت ایک بل کی شکل میں تیار کرتی ہے۔
6- ملک میں جنگ اور فوجی قبضے کے دوران انتخابات کو ایک خاص مدت کے لیے معطل کرنے کی منظوری
7- عام قوانین کی وضاحت اور تشریح
8- ملک کے تمام معاملات میں تحقیق کا حق
9- معاہدوں اور بین الاقوامی مفاہمتی یاد داشتوں کی منظوری
10- سرحدی لائنوں میں کسی بھی تبدیلی کو معمولی ترامیم کی صورت میں منظور کرنا اور مصلحتوں کی رعایت۔۔۔۔
11- جنگ اور ہنگامی حالات میں مارشل لاء کے نفاذ کی منظوری۔۔
12- حکومت سے قرض لینا یا دینا یا غیر ملکی اور غیر ملکی امداد کے لئے پارلیمنٹ سے منظوری لینی ضروری ہے۔
13- ضروری معاملات میں غیر ملکی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کی منظوری
14- ہر نمائندہ پوری قوم کے سامنے جوابدہ ہے اور اسے ملک کے تمام داخلی اور خارجی مسائل پر رائے دینے کا حق ہے۔
15- کابینہ کو اعتماد کا ووٹ دینا
16- صدر اور وزراء کے ہر نمائندے سے ان کے فرائض کے بارے میں پوچھنے کا حق۔ سوال اٹھانے کے بعد صدر کو زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کے اندر پارلیمنٹ میں اور وزیر کو 10 دن کے اندر سوال کا جواب دینا ہوگا۔
17- بورڈ آف منسٹرز یا کسی بھی وزیر کا مواخذہ۔ کم از کم 10 نمائندوں کے دستخط ہونے پر پارلیمنٹ میں مواخذے کی تجویز پیش کی جا سکتی ہے۔
18- صدر کا مواخذہ۔ اگر پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تجویز پیش کی جا سکتی ہے تو اس پر کم از کم 31 نمائندوں کے دستخط ہوتے ہیں۔ اگر مخالف اور حمایتی نمائندوں کے بیانات اور صدر کے ردعمل کے بعد کل 32 نمائندوں کی اکثریت نے صدر کی نااہلی کے حق میں ووٹ دیا تو صورتحال سپریم قیادت (ولی فقیہ) کے علم میں لائی جائے گی۔
19- عدلیہ کے سربراہ کی تجویز کے بعد گارڈین کونسل سے چھے فقہا کا انتخاب
20- براڈکاسٹنگ سپروائزری کونسل کے چھے ممبران میں سے دو ممبران کا انتخاب
21- آئینی نظرثانی کونسل کے ارکان کے طور پر 10 افراد کا انتخاب
آئین میں پارلیمنٹ کے لیے اور بھی اختیارات ذکر کئے گئے ہیں جن میں صرف اہم اختیارات کی طرف آرٹیکل میں اشارہ کیا گیا ہے۔
داخلی ڈھانچے سے لے کر فوری بلوں کی تفصیلات تک
پارلیمنٹ کے ڈھانچے میں سب سے اوپر مستقل بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے جو چیئرمین، دو وائس چیئرمین، چھے سیکرٹریز اور تین کلرکوں پر مشتمل ہے اور ان کا انتخاب ایک سال کی مدت کے لیے کیا جائے گا۔
حکومتی بلوں اور دیگر قانونی منصوبوں کا جائزہ لینے اور ان میں ترامیم اور تکمیل کے لیے پارلیمنٹ میں مختلف کمیشن بنائے گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اسپیکر کے علاوہ ہر نمائندے پر لازم ہے کہ وہ مستقل کمیشن میں سے کسی ایک کی رکنیت قبول کرے جس کے لیے منتخب یا مقرر کیا گیا ہے۔ وہ اگر وہ چاہے تو رائے دہی کا حق استعمال کرے یا ووٹ کے بغیر پارلیمنٹ کے دیگر کمیشنوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ ہر ماہ کمیشنوں کے کام کی رپورٹ پارلیمنٹ کی پریزائیڈنگ کمیٹی کو دی جاتی ہے تاکہ اسے دوبارہ تیار کرکے بورڈ پر نصب کرکے نمائندوں کو آگاہ کیا جاسکے۔
ایران کی سرکاری مذہبی اقلیتوں کے پاس پارلیمانی انتخابات کے لیے پانچ حلقے ہیں، جن میں کل پانچ نمائندے شامل ہیں۔ زرتشتی اور کلیمانی باشندے ایک ایک نمائندہ منتخب کرتے ہیں، آشوری اور کلدانی عیسائی مل کر ایک ایک نمائندہ منتخب کرتے ہیں جب کہ جنوب اور شمال کے آرمینیائی عیسائی ایک ایک نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں مذہبی اقلیتوں کے نمائندے اپنی مقدس کتاب پر حلف اٹھاتے ہیں۔
منصوبوں یا بلوں کے حوالے سے یہ بتانا چاہیے کہ ’’پلان‘‘ پارلیمنٹ کے ارکان کی تجویز ہے اور ’’بل‘‘ حکومت کی تجویز ہے۔ پارلیمنٹ کے اندرونی ضابطے کے مطابق، تین قسم کے فوری منصوبے یا بل ہیں؛ اولین فوری، ثانوی فوری اور تیسرے درجے کا فوری منصوبہ۔
فوری منصوبوں اور بلوں کو پارلیمنٹ میں ان کی منظوری کے بعد متعلقہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا جاتا ہے اور انہیں بغیر باری کے نمٹا دیا جاتا ہے، اور جیسے ہی کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ کو موصول ہوتی ہے، اسے پارلیمنٹ کے ایجنڈے پر رکھا جاتا ہے اور پہلے سیشن میں ہی اس کی منظوری دی جاتی ہے۔
فوری منصوبوں اور بلوں کو، پارلیمنٹ میں ان کی فوری منظوری کے بعد پرنٹ کر کے نقول نمائندوں میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ پھر کمیشن کا حوالہ دیے بغیر انہیں چوبیس گھنٹوں کے اندر پارلیمنٹ میں اٹھایا جاتا ہے۔
تیسرے درجے کے فوری منصوبوں اور بلوں کی منظوری کے بعد اسی اجلاس میں بحث اور جانچ پڑتال کی جائے گی اور صرف 32 اراکین کی منظوری کے ساتھ ہی منظور ہوں گے۔
واضح رہے کہ پارلیمنٹ کی تمام منظوریاں باضابطہ طور پر گارڈین کونسل کو بھیجی جاتی ہیں۔ اگر گارڈین کونسل نوٹیفکیشن کے 10 دن کے اندر یا مذکورہ 10 دن کی توسیع کی مدت ختم ہونے کے بعد اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کرتی ہے تو منظوریاں پارلیمنٹ کی طرف سے دستخط کے لئے صدر کو بھیج دی جاتی ہیں۔
پارلیمنٹ میں نمائندوں سے ووٹ حاصل کرنے کا طریقہ
پارلیمنٹ میں ووٹنگ یا رائے دہی کئی طریقوں سے کی جاتی ہے:
1- کھڑے ہو کررائے کا اظہار
2- برقی بٹن دبا کر رائے کا اظہار
3- تحری شکل میں اعلانیہ ووٹنگ
4- تحری شکل میں خفیہ ووٹنگ
جاری ہے۔۔۔۔