مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر آیت اللہ رئیسی نے اپنے نیویارک کے دورے کے دوسرے دن بعض مذاہب کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ خدا پرستی، عدالت کا قیام اور ظلم ستیزی انبیاء کا وظیفہ اور ادیان الہی کا مشترکہ نصب العین ہے۔
فلسطین میں جاری مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مظلوم فلسطینیوں پر صہیونیوں کے مظالم کا یہودیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ دین اور آسمانی کتاب رکھتے ہیں اور کسی پر ظلم کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
صدر رئیسی نے کہا کہ دینی رہنما عدالت کے قیام اور ظلم کے خلاف اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم نے مذہبی رہنماؤں کے درمیان گفتگو اور مذاکرات کی کبھی مخالفت نہیں کی ہے۔ لوگوں کی زندگی میں بہتری کے لئے بین المذاھب ڈائیلاگ ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ آسمانی کتابوں کا احترام لازمی ہے۔ قران کریم کی توہین تمام ادیان کی توہین ہے۔ مغربی ممالک کس منطق کے تحت قرآن کریم کی توہین کو آزادی بیان قرار دیتے ہوئے گستاخ عناصر کی حمایت کرتے ہیں؟
انہوں نے معنویت سے عاری سیاست کو معاشرے کی تباہی کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ مذہب مخالف سازشوں کے باوجود مغرب میں آج کی جوان نسل دین اور معنویت کی تلاش میں ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ اور ملکوں اور اقوام کو تقسیم کرنے کی خواہشات سیاست کی معنویت سے دوری کا نتیجہ ہے۔
صدر رئیسی نے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ دوسری ملاقات کے دوران کہا کہ فلسطین میں 70 سالوں سے جاری مظالم کے خاتمے کا حل مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان آزادانہ ریفرنڈم ہے۔ رہبر معظم نے یہی فارمولا پیش کیا ہے جوکہ حکومت کے قیام کے حوالے سے اقوام متحدہ میں منظور شدہ طریقہ بھی ہے۔