مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی رضا زالی نے اربعین کی روایت گری کے دوسرے بین الاقوامی سوگ کے بینر کی تقریب نقاب کشائی کے دوران اس عظیم واقعے میں موجود رازوں کو ہنر و فن کی زبان بیان کرنے کے لئے ہنری ذرائع کے استعمال کو ضروری قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر واقعہ عاشورہ کو فن اور ہنر سے مزین کرکے بیان کیا جائے تو موئثر طریقے سے دیرپا اثرات کو یادگار بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے گذشتہ سال اربعین بیان کے پہلے بین الاقوامی سوگوارے کے انعقاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس سوگوارانہ پروگرام میں ثقافتی اور فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے مختلف پروگراموں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
کئی سالوں سے ہمیں اربعین کی عظیم تقریب میں اس طرح کی صلاحیتوں کے استعمال میں کمی کا سامنا تھا لیکن پچھلے سال اربعین کی پہلی بین الاقوامی ماتمی روایت اور ثقافتی اور ہنری موکبوں کے قیام سے اس خلا کو کافی حد تک پورا کر دیا گیا ہے۔
شہید بہشتی یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے صدر نے اس عزاداری کی سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک اس کا بین الاقوامی ہونا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اربعین کی مشی بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک اور مذاہب کے لوگوں کا ایک بڑا اجتماع ہے۔ اس اجتماع میں شرکت کرنے والوں کی تعداد گینز بک آف دی ورلڈ ریکاڈ میں درج کی گئی ہے اور اسے دنیا میں ایک بین الاقوامی اجتماع کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی عوامی اجتماعات کے لیے صحت کے رہنما خطوط میں اس عظیم مشی کا نام ذکر کیا ہے۔
زالی نے واضح کیا کہ اربعین کی مشی سے متعلق بہت سے پروگراموں میں طلباء کا حصہ اور رنگ بہت کم نظر آتا ہے لیکن اربعین کی ماتمی روایت گری میں طلباء کے خیالات کو شامل کرنے سے تنوع پیدا ہوگا۔
زالی کے مطابق اربعین کے موکبوں کو ایک سماجی اور مذہبی رجحان اور تہذیب کی تعمیر کا جزو سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ثقافت اور ہنر کے ذرائع اس پروگرام کی راویت گری اور مکالمے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب کے نمائندے کے دفتر کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین علی خدیوی نے بھی اس نشست میں کہا کہ اربعین کی روایت گری کے حوالے سے پہلا بین الاقوامی سوگوارہ گذشتہ سال منعقد ہوا تھا اور اس کے سو سے زائد کاموں کی رپورٹ سیکرٹریٹ کو بھیجی گئی تھی۔
انہوں نے کہا: میڈیا نے عاشورہ کے واقعے کو قیام، وعظ، جدوجہد، آمریت اور ظلم کے خلاف شہداء اور اسیران کے پیغامات کو محفوظ کرکے اسے اخلاقیات اور روحانیت سے بھرپور عالمی کانفرنس میں تبدیل کر دیا۔
انہوں نے مزید کہا: یہ واقعہ امام عصر ع کی حکومت کی ایک جھلک ہے جس کی عظیم صلاحیت کی طرف رہبر معظم نے اشارہ کیا کہ جو اس وقت شیعیان اہل بیت کے ہاتھ میں ہے۔
اس واقعے کو برقرار رکھنے کے لیے اسے ہنر کی زبان میں روایت کیا جانا چاہیے اور اس روایت کو آرٹ کے ساتھ ملا کر مزید دلچسپ اور اثر انگیز بنانا چاہئے۔
خدیوی نے بیان کیا کہ گذشتہ سال ادارے کی کوششوں اور یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے صدر اور اراکین کے تعاون سے اربعین کی ماتمی روایت کے انعقاد کا آغاز کیا گیا تھا اور اس سال یہ دوسری بار منعقد کیا جائے گا۔ اس ماتمی روایت کے مختلف حصے ہیں جیسے فوٹو، کلپس، مختصر دستاویزی فلمیں، آڈیو یادیں، پوڈ کاسٹ، شاعری، گرافکس، عکاسی اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے کاموں کی تیاری وغیرہ۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ عام کیمروں سے بعض انسانی پیش رفتوں کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ حقیقت آٹھ سالہ دفاع مقدس کے شہداء اور مجاہدین کی یادوں اور حکایات میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے اور ان روایات کے مرکزی پیغام سے روحانیت اور عظیم معارف کو جلا ملتی ہے۔
سوشل میڈیا کے اس موکب سے طلبہ کی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اربعین کے واقعے کو ریکارڈ کرنے اور اسے یادگار بنانے میں مدد ملے گی۔