مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شہید علامہ عارف حسین الحسینی 1320 ہجری کو ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سید فضل حسین کے پاس حاصل کرنے کے بعد سکول میں داخلہ لیا۔ میٹرک کے بعد مذہبی تعلیم سے شغف رکھنے کی وجہ سے پاراچنار کے معروف مدرسہ جعفریہ اور لاہور المنتظر میں داخلہ لیا اور اعلی تعلیم 1347 ہجری میں حوزہ علمیہ نجف چلے گئے۔
حضرت امام خمینی کی جلاوطنی کے ایام میں نجف اشرف میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ان دنوں عراق میں بعث پارٹی کی حکومت تھی اور حوزہ علمیہ میں حالات نامساعد تھے۔ انوہں نے معاشی مشکلات کے باوجود پہلے مدرسہ علمیہ بشریہ اور اس کے بعد مدرسہ علمیہ دارالحکمت میں تعلیم جاری رکھی۔
نجف میں قیام کے دوران انہوں نے آیت اللہ اسداللہ مدنی، سید مجتبی لنکرانی اور آیت اللہ مرتضوی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ان کا شمار سید طیب جزائری کے شاگردوں میں بھی ہوتا ہے۔
نجف اشرف میں امام خمینی جیسی شخصیات سے آشنائی کے بعد سید عارف حسین کی زندگی میں ایک فکری انقلاب آیا۔ انقلابی سرگرمیوں اور آیت اللہ حکیم پر ہونے ظلم کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی وجہ ان کو گرفتار کرکے بعث پارٹی نے ایک مہینہ جیل میں ڈالنے کے بعد عراق سے ملک بدر کردیا۔
عراق سے پاکستان واپس آنے کے بعد سیاسی اور علمی سرگرمیاں شروع کیں اور پاکستانی مسلمانوں کے ایک مجاہد قائد کے طور پر سامنے آئے۔
1353 ہجری میں علوم اسلامی کے حصول کے لئے دوبارہ نجف اشرف کا رخ کیا لیکن بعث پارٹی نے ملک میں آنے سے روک دیا تو حوزہ علمیہ قم میں مقیم ہوئے جہاں انہوں نے آیت اللہ مکارم شیرازی، آیت اللہ فاضل لنکرانی اور آیت اللہ جعفر سبحانی جیسے جید علماء کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ علاوہ ازین رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای اور آیت اللہ ہاشمی نژاد جیسے اساتذہ سے بھی استفادہ کیا۔
سید عارف حسینی قم میں تعلیم کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ اس دور میں ایران میں علماء کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ وہ خود مظاہروں میں شرکت کرنے کے ساتھ دوسرے پاکستانی طلباء کو بھی تشویق کرتے تھے اسی لئے شاہی خفیہ ایجنسی ساواک کی نظروں میں آئے اور گرفتار ہونے کے بعد ملک بدر ہوگئے۔
سید عارف حسین نے پاکستان واپسی کے بعد عوام میں شاہ ایران کے خلاف شعور بیدار کیا اور ایران میں جاری امام خمینیؒ کی تحریک کی حمایت کی۔ وہ پاکستانی مسلمانوں کے سامنے امام خمینی کو ولی فقیہ اور عالمی مسلمانوں کے قائد کے طور پر تعارف کراتے تھے۔
انہوں نے پاکستان میں سیاسی اور ثقافتی انقلاب کے لئے کئی اقدامات کئے اور اس وقت کے حکمران ضیاء الحق کے خلاف تبلیغ کرتے تھے۔ حکومت کی جانب سے شیعوں کے خلاف ہونے والی سازشوں کو انہوں نے ناکام بنادیا۔
اس وقت کے شیعہ قائد مفتی جعفر حسین کی گرفتاری کے بعد سید عارف حسین نے سرگرمیوں میں مزید اضافہ کیا اور ان کے بعد قائد منتخب ہوکر انقلابی اقدامات کئے۔ انہوں نے تعلیمات آل محمد کی نشر و اشاعت اور ترویج کے لئے مختلف شہروں میں تعلیمی مراکز، مساجد اور ہسپتال بنائے۔
اسلامی جمہوری ایران کے رہنماوں سے قریبی رابطے کی وجہ سے ان کو انقلاب اسلامی کے وفادار اور حامی قرار دیا گیا گویا برصغیر میں سید عارف انقلاب اسلامی کے ترجمان تھے۔
انہوں نے مسلمانوں کی وحدت اور ہمدلی کے لئے پرخلوص کوششیں کیں۔ عوام کی مشکلات حل کرنے کی کوششوں کی وجہ سے وہ پاکستانی عوام میں محبوب تھے۔
حجت الاسلام والمسلمین سید عارف حسین الحسینی کو 5 اگست کو ان کے مدرسے میں نماز صبح کے بعد سعودی عرب اور امریکہ کے کارندوں نے گولی مار کر شہید کردیا۔
ان کی شہادت کے بعد حضرت امام خمینی نے تسلیت کے پیغام میں فرمایا کہ میں نے اپنا عزیز بیٹا کھودیا ہے۔ اللہ ہم سب کو ان مصیبت کو برداشت کرنے اور ان کے راستے کو پہلے سے زیادہ جاری رکھنے کی توفیق نصیب کرے اور ستمگروں کی سازشوں کو ان کی جانب لوٹا دے اور امت مسلمہ کو جہاد اور شہادت کی راہ پر ثابت قدم رکھے۔
شہید عارف حسین کے چند جملے
جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے وہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہے۔
آج امریکہ اور اسرائیل جیسے ہمارے دشمن مسلمانوں کی سرکوبی اور تفرقے کے درپے ہیں۔
مکتب اہل بیت میں ایمان، عقیدہ اور عمل صالح لازم و ملزوم ہیں۔
میں عارف حسینی اپنی جان اور مال کو قربان کرنے آیا ہوں لیکن اسلام محمدی اور ولایت فقیہ کے نظریے سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گا۔