مہر خبررساں ایجنسی، صوبائی ڈیسک: سالوں پہلے لحاف سازی کا بازار پر رونق تھا جہاں لحاف سازی سے وابستہ افراد تپتی دھوپ میں کپاس صاف کرکے لحاف بنات تھے۔ رفتہ رفتہ اس بازار کی رونق کم ہوگئی اور پرانی دکانوں کی جگہ نئی مارکیٹیں وجود میں آئیں۔ البتہ آج بھی بعض مقامات پر پرانے طریقے کے مطابق لحاف تیار کرنے والے موجود ہیں جو اپنی پیشے سے عشق کرتے ہیں۔
ان میں ایک ایسا لحاف ساز بھی ہے جو اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ دوسرے ہنر کا بھی مالک ہے۔ صاف و شفاف زبان میں اپنے احساسات اور افکار کا بیان ان کا خاصا ہے۔ وہ ایک غیر معمولی انسان ہے اور اپنے بیان سے مخاطب کو مسحور کردیتا ہے۔
شاعری اور تحریر ایسا ہنر جو کلمات کے انتخاب اور ترتیب سے سامعین اور قارئین پر جادوئی اثر کرتا ہے۔ شہر نائین کے بازار میں ایسے لحاف ساز شاعر سے ہماری ملاقات ہوئی جس نے اپنے ہنر اور مہارت سے شاعری کو چار چاند لگایا ہے۔
نائین شہر کے رہائشی علی اکبری فیض آبادی 64 سال کے ہیں۔ انہوں نے اپنی پہلا ادبی مجموعہ چھپوایا ہے۔ دوسرا مجموعہ چھپائی کے لئے دینے کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔ مخیر حضرات اس سلسلے میں مدد کرسکتے ہیں۔
دوسرے مجموعے میں نہج البلاغہ کے خطبوں کو حرف بہ حرف اور تفصیلات کے ساتھ شعر کے قالب میں بیان کیا گیا ہے۔
علی اکبری فیض آبادی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
شعر کے آغاز کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے علی اکبری نے کہا کہ ہر فن اور ہنر میں کامیابی کی پہلی اور بنیادی شرط اس کے ساتھ عشق اور محبت ہے۔ شاعری اور تحریر بھی اس قانون سے مستثنی نہیں ہے۔ اس کام کو شروع کرنے سے پہلے ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ میرے اندر شاعری کا ذوق موجود ہے۔
نہج البلاغہ کو شاعری کے لئے انتخاب کرنے کے حوالے انہوں نے کہا کہ ایک دن کسی نے نہج البلاغہ میں تحفے میں دیا۔ اس سے پہلے نہج البلاغہ کا مطالعہ نہیں کیا تھا۔ ایک مرتبہ مطالعہ کرتے ہوئے نہج البلاغہ کی ایک عبارت میری نظروں سے گزری جو بہت دلچسپ تھی۔ اس کے بعد خطبوں سے شروع کیا اور تمام خطبوں کو شعر کی صورت میں ترجمہ کردیا۔
جب ہم نے سوال کیا کہ کیا چیز باعث ہوئی کہ اس راہ میں ثابت قدم رہتے ہوئے کام کو آگے بڑھایا تو کہا کہ ایک مرتبہ خواب میں جنت کا ایک منظر دیکھا۔ یہ منظر بہت دلنشین تھا اور میں نے بے ساختہ یا علی بول دیا۔ اس وقت ایک آواز سنائی اور کہا کہ تم شاعر ہو ہمارے بارے میں اپنی توان کے مطابق شعر پڑھو۔
شعر اور ادب سے شغف رکھنے والوں کے نام اپنے پیغام میں فیض آبادی نے کہا کہ علم، ادب اور ہنر کی ارزش اور اقتصادی حالات کے پیش نظر امید ہے کہ اس سال کے آخر تک میرا دوسرا شعری مجموعہ بھی چھپنے کے بعد قارئین کو مل جائے گا۔ میرا تقاضا یہ ہے کہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں قدم بڑھائیں اور کبھی بھی ناامید نہ ہوجائیں۔