مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روزنامہ یدیعوت احرونوت نے آج اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ کہ صیہونی سیکورٹی اور فوجی حکام اس بات سے پریشان ہیں کہ نیتن یاہو تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلے میں جوہری پاور پلانٹ بنانے کی ریاض کی درخواست پر رضامند ہوجائیں گے۔
اس رپورٹ میں جو پیر کے روز شائع ہوئی، کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے حکام تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو یورینیم کی افزودگی کے لیے پرامن جوہری تنصیب کے قیام سے مشروط سمجھتے ہیں، جس سے صیہونی اعلیٰ فوجی حکام کو آگاہ کیا گیا ہے۔ ریاض کی جانب سے اس معاہدے کا فوجی مقاصد کے لیے غلط استعمال پر تشویش ہے۔
اس رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان مستقبل میں تعلقات کے معمول پر آنے کا امکان نظر آتاہے جس سے مشرق وسطیٰ کا چہرہ بدل سکتا ہے۔
پاکستان کے نیوکلیئرائزیشن کے وقت ریاض اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے یدیعوت احرونوت نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے اس وقت پاکستان کی جوہری سازی کی مالی مدد کرکے اس مسئلے میں بڑا کردار ادا کیا تھا لیکن ساتھ ہی اس نے یہ وعدہ بھی لیا تھا کہ پاکستان اس جوہری ٹیکنالوجی کا کچھ حصہ سعودی عرب کو منتقل کرے۔
اس صہیونی اخبار نے کہا کہ یہ مسئلہ تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں سعودی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی کے حق سے متعلق شق کو شامل کرنے پر سعودی حکام کے اصرار کو جواز بناتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکام یورینیم کی افزودگی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ ملک کے کچھ حصوں میں یورینیم دستیاب ہے جس سے شعبے میں آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے اور سعودیہ اس معاملے میں دنیا کا ایک اہم کھلاڑی بن سکتا ہے۔ درحقیقت سعودی رہنما ایک ایسے وقت کے بارے میں سوچ رہے ہیں جب تیل ختم ہو جائے گا اور اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے تیل کی آمدنی پر انحصار کرنے والے اس ملک کو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔