طویریج دستہ واقعہ عاشورا کی المناک منظرکشی کرتا ہے، واقعہ عاشورا کے بعد کربلا پہنچنے والے لوگوں کی داستان جو اس کے بعد تاریخ کا حصہ بن گئی۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق طویریج دنیا کا سب سے بڑا ماتمی دستہ شمار ہوتا ہے۔ یہ دستہ ہر سال عاشورا کے موقع پر نکلتا ہے۔ 

عاشورا کے روز نماز ظہرین کے بعد عزارادان حسینی کربلائے معلی کے مشرقی علاقے سے قطرۃ السلام اور طویریج سے کربلا کے مرکز کی طرف حرکت کرتے ہوئے بین الحرمین پہنچتے ہیں۔

عزاداران پورے راستے کے دوران منظم طریقے سے سینہ زنی اور نوحہ خوانی کرتے ہوئے گھٹنوں کے بل چلتے ہیں۔ طویریج سے کربلا تک 20 کلومیٹر فاصلہ ہے۔ راستے میں مومنین واحسینا، لبیک یا حسین اور واویل علی العباس کہتے ہوئے سر اور سینہ پیٹتے ہیں۔

اس رسم کی تاریخ 61 ہجری کے واقعہ کربلا سے شروع ہوتی ہے۔ جب طویریج کے لوگوں کو واقعہ کربلا کی خبر ملی تو دوڑتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کی مدد کے لئے کربلا کی طرف نکل گئے لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔

طویریج والوں نے اس کے بعد اس رسم کو زندہ رکھا۔اس کے بعد ہر سال عاشورا کے دن یہاں کے لوگ کربلا کی دوڑتے ہیں۔ وقت گزرنے  کے ساتھ دوسرے علاقوں کے لوگوں نے بھی اس رسم میں حصہ لینا شروع کیا۔

عراقی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس رسم میں شریک ہوکر کربلا کی طرف جانے والوں کی تعداد دس لاکھ تک ریکارڈ کی گئی ہے۔

عراقی ذرائع کے مطابق یہ عزاداری اباعبداللہ الحسین کا دنیا کا سب سے بڑا دستہ ہے۔

سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کے دور میں 1991 کے انتفاضہ کے بعد اس رسم پر پابندی لگادی گئی لیکن طویریج کے شہریوں نے ان پابندیوں کے خلاف سخت مزاحمت کی اور سڑکوں پر نکل آئے۔ صدام کے آلہ کاروں نے عوام پر شدید تشدد کیا جس کے نتیجے میں کئی عزادار شہید اور متعدد گرفتار ہوئے۔

2003 میں صدام کے سقوط کے بعد یہ رسم دوبارہ پوری شان و شوکت کے ساتھ ادا کیا جانے لگا۔

ہفتے کے روز عراقی ذرائع ابلاغ نے تصاویر منتشر کرکے طویریج کی عزاداری کو خصوصی کوریج دی ہے۔

عراقی عوامی رضاکار فورس کے مقامی کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ حشد الشعبی کے 2 ہزار اہلکار اس موقع پر عزاداروں کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کریں گے۔