مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی جریدے فارن پالیسی نے تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کی بحالی سے متعلق اپنے ایک مضمون میں اسے بدلتے ہوئے علاقائی حالات میں ایران کے فائدے اور امریکہ کے نقصان کی علامت قرار دیا ہے۔
اس جریدے نے اپنے مضمون کا آغاز دسمبر کے اوائل میں چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ ریاض اور خلیج فارس کے عرب ممالک کے رہنماؤں کے اجلاس میں ان کی شرکت سے کیا۔ ایک ایسا دورہ جس میں چینی صدر نے ریاض کے اعلیٰ حکام سے ملاقات اور گفتگو کے علاوہ عرب ممالک کے سربراہان سے بھی مشاورت کی۔ یہ دورہ ایک ایسے نازک وقت پر ہوا کہ جب توانائی، علاقائی سلامتی اور انسانی حقوق جیسے مسائل نے دو پرانے اتحادیوں، ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کشیدہ کردئے تھے۔
اس دورے میں چینی صدر نے ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی جس کے نتیجے میں 2023 کا بیجنگ معاہدہ ایران وجود میں آیا۔ اس معاہدے نے 1967 کی بنکاک کی ثالثی کی یاد تازہ کرا دی کہ جب انڈونیشیا اور ملائیشیا کی باہمی دشمنی ختم ہوگئی تھی۔
اس معاہدے سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) نے جنم لیا جس کے نتیجے میں علاقائی استحکام کے لئے مقامی ملکوں کے اتحاد کا تصور پیدا ہوا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اس نتیجے پر پہنچے کہ تعاون کے بغیر، وہ نہ تو اقتصادی ترقی کا تجربہ کر سکیں گے اور نہ ہی اپنی سلامتی کو یقینی بنا سکیں گے۔
یہ امریکی میگزین لکھتا ہے لکھتا ہے کہ مغربی ایشیا کے حالیہ تناؤ سے ثابت ہوتا ہے کہ 1960 کی دہائی میں جنوب مشرقی ایشیا جس علاقائی شعور تک پہنچا تھا وہ اب مشرق وسطیٰ میں تشکیل پا رہا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات اپریل 2021 میں بغداد میں شروع ہوئے، پھر عمان کی ثالثی کوششوں کے بعد آخر کار بیجنگ میں وہ ایک معاہدے پر پہنچے۔
حالیہ پیش رفت سے یہ نتیجہ اخذ سامنے آتا ہے کہ اب مغربی ایشیا کے ممالک نے غیر ملکیوں کے اشاروں پر ناچنے کے بجائے اپنے قومی مفادات کو معاہدوں کی بنیاد بنایا ہے۔
امریکہ ایک ناقابل اعتماد اتحادی
اگرچہ امریکہ کا مغربی ایشیا سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن خلیج فارس میں اس کے عرب اتحادیوں نے سیکورٹی شراکت دار کے طور پر اس کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو انہیں ایران سے دور کرنے کے بجائے اس کے قریب تر کر رہی ہے۔ جس کی ایک مثال یہ کہ 2019 میں سعودی عرب کی آرامکو آئل کمپنی کی دو ریفائنریز پر ڈرون حملے ہوئے جو کہ تہران کی کارستانی سمجھے جاتے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ انتظامیہ نے تہران کے خلاف معمول کی بیان بازی کے علاوہ کوئی خاص ردعمل نہیں دکھایا۔ واشنگٹن کی سردمہری کے بعد کارٹر نظریہ سعودیوں کے لیے اہمیت کھو بیٹھا، یہ نظریہ 1980 میں خلیج فارس میں اپنے قومی مفادات کے دفاع کے لیے طاقت کے استعمال کے امریکی عزم کے عنوان سے وضع کیا گیا تھا۔ بلاشبہ اس پیش رفت نے سعودیوں کو ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار کر دیا۔ سعودیوں کے بعد اب متحدہ عرب امارات اور عمان بھی ایران کے ساتھ مذاکرات کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ عرب ملکوں کی ایران کے ساتھ مذاکرات کی جانب پیش قدمی نے ثابت کیا ہے اب خطے میں استحکام اور تناؤ میں کمی، یمن اور شام کی خانہ جنگیوں سے لے کر لبنان اور عراق کے مسائل کے حل کے لئے امریکا پر بھروسہ کئے بغیر علاقائی کھلاڑیوں کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔
چین علاقائی سلامتی کا حامی
فارن پالیسی کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ اب چین نے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا سفارتی کردار سنبھالا ہے جو خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے عمل کو برقرار رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ بیجنگ سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے ذریعے ایران کے خلاف سمندری توازن قائم کرنے کے واشنگٹن کے نقطہ نظر کی پیروی نہیں کرتا ہے۔ بلکہ اس نے علاقائی تنازعات کے حوالے سے زیادہ غیر جانبدارانہ انداز اپنایا ہے، اس طرح کہ وہ کشیدگی کو ہوا دینے کے بجائے خطے میں امن کا خواہاں ہے۔
چین کا یہ سفارتی انداز امریکہ کو سفارت کاری میں مشغول کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ چین نے ثالثی کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کو اکٹھا کیا ہے، اب وائٹ ہاؤس کو اپنا امیج بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ چین ایک پرامن امیج لے چکا ہے اور امریکہ دنیا میں ایک جنگوں کی تجارت کرنے والے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جو صرف ہتھیار بیچنا چاہتا ہے۔
اس امریکی جریدے نے اپنے مضمون کے آخر میں لکھا ہے کہ سعودیوں کے ساتھ حالیہ معاہدے میں تہران کی قلیل مدتی فتح وقتی طور پر سعودی عرب کو صیہونی حکومت سے دور کر سکتی ہے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ کم از کم یہ معاہدہ تہران اور ریاض کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے کہ جس میں دونوں فریق ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا چھوڑ دیں گے۔ لہذا مغربی ایشیا میں بدلتی ہوئی علاقائی مساوات عالمی سطح پر بدلتے حقائق کی نشاندہی کرتی ہیں۔