وکالت کے سسٹم کو وسعت دینا اور اہل بیت (ع) کی تعلیمات کو پھیلانا ان اہم ترین مقاصد میں سے ایک تھا جن کی حضرت عبد العظیم حسنی (ع) شہر ری میں امام ہادی (ع) کے حکم کے مطابق پیروی کرتے رہے اور پیش آنے والے مختلف مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

مہر خبررساں ایجنسی؛ 15 شوال المکرم یوم وفات حضرت عبد العظیم حسنی ہے۔ شاہ عبد العظیم حسنی بروز جمعرات 4 ربیع الثانی سنہ 173 ہجری کو خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کو شاہ عبدالعظیم حسنی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد کا نام عبدللہ بن علی اور والدہ کا نام ہیفاء تھا جو اسمٰعیل بن ابراہیم کی نیک اور پاکیزہ بیٹی تھیں۔ آپ کی کنیت ابوالقاسم اور ابوالفتح ہے۔ آپ حسنی سادات کے علماء اور علم حدیث کے راویوں میں سے تھے۔ عبدالعظیم حسنی کا نسب چار پشتوں میں امام حسن ابن علی علیہ السّلام سے ملتا ہے۔ تاریخ میں انہیں با تقوا، امین، صادق، دین شناس عالم دین،اصول دین کا قائل اور محدث کے عناوین سے یاد کیا ہے۔ شیخ صدوق نے ان سے منقول احادیث کو جامع اخبار عبد العظیم کے نام سے جمع کیا ہے۔

آپ کا علمی مقام:

ابو تراب رویانی کہتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ ابو حماد رازی کہتے تھے کہ میں سامرا میں امام ہادی(ع) کی خدمت میں وارد ہوا اور بعض حلال و حرام کے مسائل کے بارے میں سوال کیا۔ جب واپسی کا ارادہ کیا تو امام(ع) نے فرمایا: چنانچہ اگر دینی امور میں حلال و حرام کی [تشخیص] کے بارے میں تمہارے اوپر کوئی مسئلہ دشوار ہوا تو عبدالعظیم بن عبداللہ حسنی سے سؤال کرو اور انہیں میرا سلام پہنچا دو۔

آپ سے منقول احادیث کی تعداد:

حدیث کی کتب اور روایت کے متون میں عبدالعظیم حسنی سے منقول احادیث کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ صاحب بن عباد کہتے ہیں: آپ کثرت سے احادیث نقل کرتے تھے اور امام جواد(ع) اور امام ہادی(ع) سے آپ نے حدیث نقل کی ہے۔ آپ سے کچھ کتابیں بھی اس وقت ہمارے اختیار میں ہیں جیسے کتاب "خُطَب امیرالمؤمنین‌"اور کتاب "یوم و لیلہ" جو ظاہرا اعمال پر مشتمل ہے جو ائمہ اطہار(ع) کی احادیث میں مختلف اذکار کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔ اور ہر مکلف دن اور رات میں مستحب یا واجب عمل انجام دے سکتا ہے۔ آپ کی ایک اور کتاب "روایات عبدالعظیم حسنی‌" کے نام سے معروف ہے۔ بعض بزرگان نے عبدالعظیم حسنی سے احادیث نقل کی ہیں منجملہ شیخ صدوق نے آپ سے منقول حدیثوں کے مجموعے کو "جامع اخبار عبدالعظیم‌" کے نام سے جمع کیا ہے۔ آپ نے بغیر واسطہ اماموں سے جو احادیث نقل کی ہیں ان میں دو احادیث امام رضا(ع) سے 26 احادیث امام جواد(ع) سے اور 9 احادیث امام ہادی(ع) سے نقل کیا ہے اور ان احادیث کی تعداد جو انہوں نے با واسطہ نقل کی ہیں ان حدیثوں کی تعداد 65 ہیں۔

حضرت عبد العظیم حسنی علیہ السلام کی سابقہ جدوجہد:

حضرت عبدالعظیم حسنی (ع) کے خاندان کی جنگی تاریخ اور دوسری طرف ان کی علمی اور جہادی شخصیت اور اہل بیت(ع) کے ساتھ ان کا انتہائی قریبی تعلق، آپ کی زندگی کے آخری ایام میں حکومت وقت کی طرف سے تعاقب کا باعث بنا، لہٰذا اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کیلئے انہیں رے کا سفر کرنا پڑا، بعض کا خیال ہے کہ حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام نے امام ہادی علیہ السلام کے حکم پر خفیہ زندگی کا انتخاب کیا اور خفیہ طور پر رے چلے گئے اور وہاں اہل بیت علیہم السلام کے ایک پیروکار کے گھر سکونت اختیار کی اور آپ دن کو روزے سے اور رات کو عبادت سے گزارتے تھے۔ آپ کے علمی مقام کیلئے اتنا کافی ہے کہ آپ نے تین معصومین یعنی امام رضا علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام اور امام علی نقی علیہ السّلام کے کسب فیض کیا اور ان ہستیوں کی شاگردی میں رہے۔ آپ علمی نقطۂ نظر سے ایک قابل قدر مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی وجہ سے آپ امام ہادی (ع) کے نمائندے یا وکیل کے طور پر رے کی سرزمین پر چلے گئے۔

رحلت کی تاریخ اور زیارت گاہ:

آپ کی رحلت 15 شوال سنہ 252 ہجری کو امام ہادی (ع) کے زمانے میں واقع ہوئی۔ نجاشی نقل کرتے ہیں: شاہ عبدالعظیم حسنی (ع) بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں دنیا سے چل بسے۔ شیخ طوسیؒ فرماتے ہیں: شاہ عبدالعظیم حسنی (ع) نے شہر رے میں وفات پائی اور ان کی قبر اسی شہر میں واقع ہے۔ محدث نوریؒ کے مطابق کسی شیعہ مؤمن کو خواب میں رسول اکرم ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے ان سے فرمایا: کل "عبدالجبار بن عبدالوہاب رازی" کے گھر سیب کے باغ میں میری نسل سے ایک شخص دفن ہوگا۔ اس شخص نے اس باغ کو خریدا اور اسے عبدالعظیمؑ اور دیگر شیعوں کی اموات کے نام وقف کر دیا۔ اسی وجہ سے حرم عبدالعظیم حسنی "مسجد شجرہ" یا "مزار نزدیک درخت" کے نام سے معروف تھا۔ شیخ صدوقؒ نے انکی قبر کی زیارت کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق شہر ری کا ایک شخص امام علی النقی(ع) کی خدمت میں وارد ہوا اور کہا: حضرت سیدالشہداء (ع) کی زیارت سے مشرف ہوکر آیا ہوں تو امامؑ نے فرمایا: قبر شاہ عبدالعظیمؑ جو تمہارے نزدیک ہے، کی زیارت کا ثواب قبر حسین بن علیؑ کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے۔