مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رائٹرز نے رپورٹ دی ہے کہ برطانوی وزارت خارجہ نے مداخلت پسندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے ایران میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہونے والے علی رضا اکبری کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مذکورہ خبر رساں ایجنسی کے مطابق برطانوی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس سلسلے میں کہا کہ ہم اکبری کے خاندان کی حمایت کرتے ہیں اور ہم نے ان کا مسئلہ کئی بار ایرانی حکام کے سامنے اٹھایا ہے۔ ہماری ترجیح اس کی فوری رہائی ہے اور ہم نے فوری قونصلر رسائی کی اپنی درخواست پر زور دیا ہے!
خیال رہے کہ گزشتہ روز ایرانی عدلیہ کے میڈیا سینٹر نے اعلان کیا تھا کہ علی رضا اکبری کو کچھ عرصہ قبل ملک کے خلاف جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اعلان کے مطابق ملزم کے خلاف عدالتی مقدمہ درج کرنے اور فرد جرم عائد کرنے کے بعد کیس کو عدالت میں بھیجا گیا اور ملزم کے وکیل کی موجودگی میں کیس کی سماعت ہوئی اور کیس میں پیش کردہ ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر منصفانہ کارروائی کے بعد اس شخص کو برطانیہ کے لیے جاسوسی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔
ایرانی عدلیہ کے میڈیا سینٹر کے بیان میں مزید کہا گیا کہ مدعا علیہ کے اعتراض اور اس کی اپیل کے بعد سپریم کورٹ میں کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی اور اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ابتدائی فرد جرم اور اکبری کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔ مجرم اس وقت اپنی سزا پر عمل درآمد کا انتظار کر رہا ہے۔
ایک متعلقہ بیان میں ایرانی وزارت انٹیلی جنس نے اس بات پر زور دیا کہ اکبری برطانوی انٹیلی جنس سروس کے اہم ترین ایجنٹوں میں سے ایک تھا جس نے ملک کے بارے میں اہم معلومات اکٹھی کیں اور انہیں مکمل طور پر آگاہی کے ساتھ اور ہدف کے تحت برطانیہ کو فراہم کیا۔بیان میں مزید کہا گیا کہ علی رضا اکبری نامی اس جاسوس کی ملک کے بعض حساس اداروں تک رسائی تھی اور اس نے انہی حدود میں دشمن کے جاسوسی ادارے کو مکمل آگاہی کے ساتھ اور کئی بار معلومات فراہم کی تھیں۔
ایرانی وزارت اینٹلی جنس کے مطابق مذکورہ جاسوس کو تہران میں برطانوی سفارت خانے سے ویزا حاصل کرنے کے عمل کے دوران وہاں تعینات انٹیلی جنس ایجنٹوں نے ٹارگیٹ کیا اور اس کا انٹرویو کیا۔ پھر یورپ کے اپنے نجی دوروں کے دوران وہ برطانوی جاسوس ایجنسی کا کل وقتی ملازم بن گیا۔اپنے عہدے اور رسائی کی اہمیت کی وجہ سے علیرضا اکبری ایس آئی ایس کے لیے ایک اہم جاسوس بن گیا، جسے بیک وقت ایران ڈیسک کے کئی اہم افسران کے ذریعے ڈی بریفنگ کیا جاتا اور ہدایات دی جاتی تھیں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اگرچہ خبیث برطانوی دشمن اس شخص کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اسے بھرتی کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا، تاہم وہ یقینی طور پر نہیں جانتا کہ موصول ہونے والی معلومات کا کون سا حصہ ڈائریکٹ شدہ معلومات اور اس کو فریب دینے کے لئے تھا۔