تحریر: سیدہ سائرہ نقوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ۔ " بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خرید لیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہو جاتے ہیں۔" (التوبہ: ۱۱۱) الحمدللہ، قرآنِ کریم کی اس آیت کی مصداق ہستیوں میں ایک اور اضافہ ہوا، 3 جنوری 2020ء کی شب عراق کے شہر بغداد میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے بازو قدس فورس کے سپہ سالار حاج قاسم سلیمانی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔ شہید حاج قاسم کی شہادت متوقع تھی۔ وہ اشترِ وقت، خطہ کے علمدار اور موجودہ اور سابقہ امریکی حکومتوں کی آنکھ کا کانٹا تھے، کیونکہ وہ امریکی و صیہونی طاغوت کے مقابلہ میں شام، عراق، فلسطین، یمن اور افغانستان کی مظلوم عوام کے لئے مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرے۔ دنیا انہیں خطہ میں جنگی محاذوں پر چاق و چوبند سپہ سالار کی حیثیت سے جانتی تھی، لیکن ان کا طرہ امتیاز حرمین انبیاء و اہل بیت علیہم السلام کی حفاظت اور تکفیریت کے خاتمے کے لئے داعش کے خلاف قیام تھا۔
شہادت مکتب اہلِ بیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے لئے ایک خدائی ہدایت یا الہام کا درجہ رکھتی ہے۔ شہید اس الہام کے ساتھ جنم لیتا ہے، اس کے وجود کی مٹی اسی الہامی خوشبو میں رچی بسی ہوتی ہے۔ بحیثیت مجاہد حاج قاسم شہادت کی آرزو رکھتے تھے۔ وہ رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے ماتحت اور دستِ راست تھے، لیکن ان دونوں کے درمیان ایک خاص روحانی ربط تھا۔ اس ربط کو رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی حاج قاسم کے بارے میں دی گئی مختلف آراء کی روشنی میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ رہبر معظم ان کی مجاہدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے، اسی لئے ان کو ”زندہ شہید“ کا لقب دیا۔ رہبر معظم کو علم تھا کہ لفظ شہادت جلی حروف میں ان کی پیشانی پر لکھا ہے، اسی لئے ان کو قیامت کے دن بطورِ شہید اپنی شفاعت کا ضامن قرار دیا۔ کسی بھی شخص کے دنیا سے گزر جانے کے بعد اس کے بارے میں دی جانے والی رائے اس کے کردار پر ثبت مہر کا کام دیتی ہے۔
جب رہبر معظم حاج قاسم کی شہادت کے بعد ان کے گھر تعزیت و تسلیت کے لئے تشریف لے گئے تو سوگواران سے انتہائی خوبصورت انداز میں حاج قاسم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ فرمایا: ”حاج قاسم متعدد بار شہادت کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے، لیکن راہ ِخدا میں پیش قدمی، فرائض کی انجام دہی اور جہاد کی بات ہو تو وہ کسی اور چیز کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔ دنیا کے خبیث ترین افراد یعنی امریکیوں کے ہاتھوں جنرل سلیمانی کی شہادت اور اس جرم پر امریکیوں کا فخر کرنا اس شجاع مجاہد کے لئے ایک بڑی خصوصیت ہے۔ ان کا جہاد بہت عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ عظیم نعمت الحاج قاسم کو مبارک ہو، جو اس کے سزاوار تھے۔“ جب شہید حاج قاسم کو فوجی اعزاز ”نشانِ ذوالفقار“ سے نوازا گیا تو اس وقت بھی رہبرانقلابِ اسلامی نے ان کی توصیف کے لئے نہایت خوبصورت الفاظ کا چناؤ کیا۔
آپ نے فرمایا: ”راہِ خدا میں مجاہدت کا صلہ جو ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان و مال ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھنے کے عوض جو صلہ رکھا ہے، وہ بہشت ہے، رضائے پروردگار ہے۔ ہمارے اختیار میں جو چیز ہے، خواہ وہ زبانی شکریہ ہو، یا عملی اظہار تشکر ہو، یا یہ نشان عطا کرنا ہو یا جو رینک ہم دے سکتے ہیں، یہ ساری چیزیں مادی اور دنیاوی حساب کتاب کے اعتبار سے قابلِ ذکر ہیں، روحانی و الوہی حساب کتاب میں ان کی کوئی بساط نہیں ہے۔ الحمد للہ آپ سب نے یہ جدوجہد انجام دی ہے، محنت کی ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ان برادر عزیز جناب سلیمانی کو بھی توفیقات سے نوازا۔ بارہا، بارہا، بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈالی اور وہاں پہنچے جو جگہ دشمن کے حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ راہ خدا میں، برائے خدا اور خالصتا لوجہ اللہ آپ نے جہاد کیا۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو اجر عطا فرمائے، آپ پر کرم کرے اور آپ کی زندگی کو باسعادت فرمائے اور آپ کو شہادت نصیب کرے۔ البتہ ابھی نہیں۔ ابھی تو اسلامی جمہوریہ کو برسوں آپ کی ضرورت ہے۔ لیکن بالآخر ان شاء اللہ زندگی کا سفر شہادت کی منزل پر ہو۔ آپ کو (یہ نشان) بہت بہت مبارک ہو۔“
ایک مردِ مومن کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ اس کے ہاتھ کا کمایا ہوا حلال رزق ہوتا ہے، لیکن حاج قاسم کی جہاد کے لئے وقف شدہ زندگی نے انہیں اس حق سے بھی بے نیاز کر دیا۔ سپاہِ قدس میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام علی شیرازی کہتے ہیں: ”سلیمانی اپنی تعیناتی کے دوران ایک ریال یا ایک ڈالر لینے کے بھی روادار نہ تھے اور اکثر مجھ سے کہتے کہ میں اپنے بیوی بچوں کے اخراجات خود برداشت کرتا ہوں۔ اگرچہ قاسم سلیمانی کی شہادت ہمارے لیے انتہائی بڑا صدمہ ہے لیکن وہ ہمیشہ اس کی آرزو کرتے تھے اور میں جانتا ہوں کہ یہ ان کی چالیس سالہ خواہش تھی۔“ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ اور شہید حاج قاسم 2006ء کی اسرائیل جنگ میں اور اس کے بعد قریب تر رہے۔ سید حسن نے ان کی کرشمہ ساز شخصیت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”وہ ایک لامحدود شخصیت تھے۔ دوسرے مجاہدین سے یکسر مختلف اور نمایاں! میدانِ جہاد کا ہر مجاہد ان کی زیارت اور ملاقات کے لئے بیتاب رہتا تھا۔ ہم نے ان کو کبھی خستہ نہ دیکھا۔ وہ مسلسل جہاد یا پھر شہادت کے قائل تھے۔ انہوں نے سرحد پار جہاد کو وطن میں قیام پر ترجیح دی۔“
وطن سے ہجرت اور حق کی راہ میں لڑتے ہوئے جان قربان کرنا سیرتِ انبیاء و معصومین علیہم السلام ہے، حاج قاسم نے اس سنت کو زندہ رکھا۔ اگر مدافع حرم حضرت زینب سلام اللہ علیہا حاج قاسم ۱۹۲۵/۱۹۲۶ میں موجود ہوتے تو انہدام جنت البقیع کا المناک سانحہ پیش نہ آتا۔ شہید حاج قاسم سلیمانی کی ظاہری شخصیت کا طاقتور ترین پہلو ان کی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ وہ بلا کے ذہین تھے۔ صیہونی طاقتیں ان کی ذہانت اور نظریہ سے خائف تھیں، کیونکہ ان کے نزدیک حاج قاسم کی مجاہدانہ کامیابیوں میں ان کے نظریاتی ہونے کا عمل دخل بھی شامل تھا۔ مغربی میڈیا نے خطہ میں ان کے مجاہدانہ کردار کو متنازع بنا کر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، لیکن شہادت کے بعد ان کو غیر معمولی پذیرائی ملی اور وہ ایک عالمی شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ لوگ ان کے اہداف سے آگاہ ہوئے اور ان کی جدوجہد کو مزاحمت و مقاومت کا امتزاج قرار دیا۔
شہید قاسم سلیمانی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ میں اپنی اس تحریر میں اس عظیم شہید کی شخصیت کا احاطہ شاید نہ کرسکوں۔ شہید قاسم سلیمانی کی شناخت صرف داعش کا خاتمہ نہیں ہے، اگر دیکھا جائے تو آج کے دور میں تفکر اور استقامتِ دینی کے احیاء کا عَلَم ان کے ہاتھ میں تھا اور یہ صرف عراق کی بات نہیں ہے۔ اگر ہم لبنان کی گلیوں میں دیکھیں تو ان کی خوشبو آتی ہے، اگر ہم فلسطین، القدس کی گلیوں میں دیکھیں تو اس ہستی کی خوشبو ان تمام گلیوں میں رچی بسی ہے۔ اگر ہم حلب اور دمشق کے گلی کوچوں میں دیکھیں تو ان کی خوشبو وہاں بھی محسوس ہوتی ہے۔ بغداد میں اور یمن میں بھی آج اگر کوئی مقاومت ہے، ظلم کے مقابلے میں مظلوم اور پا برہنہ لوگ بے یار و مددگار ہونے کے باوجود سب سے بڑی قوتوں کی ناک زمین پر رگڑ رہے ہیں تو اس میں بھی اس عظیم شخصیت کا ہاتھ تھا۔ اس کے علاوہ ایران، افغانستان اور نائجیریا میں حاج قاسم کی جو خدمات ہیں، وہ اپنی جگہ بے مثأل ہیں۔
شہید قاسم سلیمانی کے مقام تک پہنچنے کے لیے صرف ذہانت، اسلحہ اور تدبیر کافی نہیں ہے۔ غالباً بڑے بڑے عقلاء اس مقام تک نہ پہنچ پائیں۔ بڑے بڑے ذہین اور جنگی حکمت سے آراستہ لوگ بھی اس رتبہ کو حاصل نہ کرسکیں، تو پھر شہید قاسم سلیمانی کے اس بلند مقام تک پہنچنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کی وجہ شہید قاسم میں اخلاص اور عجز و انکساری کا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہونا تھا۔ جب عربوں نے شہید قاسم سلیمانی کو عجم کہہ کر ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا تو انہوں نے کہا تھا کہ اے میرے عرب بھائی، میں تو سب کچھ اللہ کے لیے کر رہا ہوں۔ شہید قاسم سلیمانی کا اپنے بدترین عربیوں کو اس اخلاص سے مخاطب کرنا واقعی اخلاص کی معراج ہے۔ شہید قاسم سلیمانی وہ شخصیت تھے، جن کی قسمت پر بڑے بڑے علماء و عرفاء اور بڑی بڑی بزرگ ہستیاں رشک کرتی تھیں، تاہم شہید قاسم سلیمانی میں عجز و انکساری اتنی تھی کہ وہ لوگوں سے یہ درخواست کر رہے تھے کہ وہ ان کے اعمال کے گواہ بنیں۔
وہ شہادت کا بڑا شوق رکھتے تھے اور اللہ نے بالآخر ان کی مراد پوری کر دی اور شہادت عطا فرما دی۔ شہید قاسم سلیمانی اسلام کے وہ ہیرو ہیں، جنہوں نے افغانستان، عراق، یمن، شام، لبنان اور فلسطین میں دین کے پرچم کو بلند رکھنے کے لیے جدوجہد کی، تاہم انہوں نے عراق اور شام میں امریکی نواز داعشیوں کا قلع قمع کیا اور امریکہ کی مشرق وسطیٰ پر قابض ہونے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیز کو بھی ناکام بنا دیا۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو شہادت کی تمنا کرتے ہیں اور خدا ان کو شہادت کے لئے چُن لیتا ہے۔ شہید حاج قاسم سلیمانی کی شہادت نے امریکہ کے حقیقی چہرے کو ایک بار پھر آشکار کیا ہے، بہت جلد ہمیں اس شہادت کا ثمر امریکہ کے خطہ سے مکمل انخلاء کی شکل میں ملے گا۔ یقیناً شہید حاج کا شمار ان خوش نصیب لوگوں میں ہے، جن کو وقت کے امام (عج) قم باذن اللہ کہ کر پکاریں گے اور وہ اُس وقت بھی اشترِ وقت بن کر امام کے ساتھ قیام فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ!