سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے پرامن ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف بے بنیاد الزامات کو دہراتے ہوئے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے کے عدم حصول کےمتعلق خبردار کیا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ اگر تہران مبینہ طور پر جوہری ہتھیار حاصل کرتا ہے تو ایران کے خلیج فارس کے عرب ہمسایہ ممالک اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔

الجزیرہ کے مطابق شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم خطے میں ایک انتہائی خطرناک جگہ پر ہیں، آپ توقع کر سکتے ہیں کہ خطے کی ریاستیں یقینی طور پر اس طرف نظر رکھیں گی کہ وہ اپنی سلامتی کو کیسے یقینی بنا سکتے ہیں۔

اپنے دعوؤں کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم جوہری سمجھوتے تک نہیں پہنچتے تو ایک انتہائی خطرناک اور پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو جائیں گے جس سے ہمیں بچنا چاہیے۔ البتہ کسی سمجھوتے تک پہنچنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تہران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا!

انہوں نے جے سی پی او اے کے مقابلے میں ایران کے ساتھ ایک "مضبوط" سمجھوتے پر زور دیا، جس سے ایران ابھی تک دیگر فریقوں کی تمام خلاف ورزیوں کے باوجود دستبردار نہیں ہوا ہے۔

شہزادہ فیصل نے ویانا مذاکرات کے اختتام کے بارے میں کہا کہ بدقسمتی سے اس وقت آثار زیادہ مثبت نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کی جوہری ٹیکنالوجی مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ پابندیوں کے خاتمے اور جے سی پی او اے کی بحالی پر تعطل کا شکار ویانا مذاکرات کے لیے امریکہ کی زیرِ قیادت مغربی ممالک کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

در ایں اثنا سعودی وزیر خارجہ نے چین کے ساتھ تعاون کے مسئلے کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہونے کے ناطے چین کے ساتھ مذاکرات ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔

فیصل بن فرحان نے تیل کے بارے میں کہا سعودی عرب تمام شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے تیل کی منڈی کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ البتہ اس وقت تیل کی قیمت منصفانہ اور مستحکم ہے اور ہم نے امریکہ کو بھی کہا ہے کہ قیمت تیل پیدا کرنے والے اور صارف کے لیے منصفانہ ہونی چاہیے۔

انہوں نے سعودی عرب اور روس کے تعلقات کے بارے میں کہا کہ ریاض اور ماسکو کے تعلقات اچھے ہیں اور یہ تعلقات مذاکرات کی بنیاد پر ہونے چاہئیں اور اسی مسئلہ نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں ریاض کی ثالثی کا کردار ادا کرنے میں مدد کی۔