تحریر: احمد فاطمی
پاکستان کے قیام کا مہینہ جہاں ہم کو اور بہت سی باتوں کی جانب متوجہ کرتا ہے، وہیں اس جانب بھی متوجہ کرتا ہے کہ اس مملکت خداداد کے قیام و استحکام میں یہاں کے تمام باسیوں کی محنت و کاوش شامل ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ مذاہب عالم مین سے ہر مذہب کی اساس انسان کی فلاح، دوسروں سے محبت، احترام اور اچھائی کے غلبے پر ہے۔ اس لیے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو جو اِس سرزمین کے باسی ہیں، محبت سے محبت اور نفرت سے نفرت کرنی چاہیئے۔ مورخہ 12 اگست 2022ء بروز جمعہ کو کراچی میں شعور فاونڈیشن برائے تعلیم و اگہی پاکستان کے زیر اہتمام تفہیم پراجیکٹ کے تحت ایک سوشل ایکشن پراجیکٹ بعنوان "ملی یکجہتی کارواں برائے پُرامن پاکستان" کا انعقاد کیا گیا، تاکہ سماج میں امن کے قیام کی سوچ کو عمل کے زیور سے مزین کرکے عام افراد تک منتقل کیا جا سکے۔
تفہیم پراجیکٹ کے پراجیکٹ مینیجر جناب سمیع خان اور معاون محترمہ ماہ رخ صاحبہ کی سرپرستی میں اس کارواں میں مولانا محمد احمد فاطمی، مولانا صادق قلاتی، مولانا فصاحت حیدر، مولانا شہروز زیدی، مولانا ملک زعیم عباس، مولانا اکبر علی، مولانا محسن رضا غدیری سمیت شیعہ اور اہل سنت کے نوجوان علماء کرام اور مفکرین عظام کی ایک جماعت نے شرکت کی، اس کے علاوہ مسیحی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے محترم جناب خادم بھٹو اور سکھ برادری کے نمائندے محترم جناب سردار امر سنگھ بھی شامل ِسفر رہے۔ اس سلسلے میں بین المذاہب ہم آہنگی اور استحکامِ پاکستان کے شعار کے ساتھ کراچی کے علاقے سولجر بازار کا انتخاب کیا گیا، جو کہ شکر کا ایک مرکزی علاقہ ہے، جہاں عوامی رکشوں پر ٹرک آرٹ کے اسٹائل سے رنگوں اور امنگوں کے امتزاج کے ساتھ امن اور دوستی، محبت و رواداری کے پیغامات کو لکھا گیا، علاوہ از ایں پاکستان کے پرچموں سے مزین کیا گیا۔
بعدازاں، اس کارواں نے سفر شروع کیا، جس کی منزل پاکستان کا ایک تاریخی مندر پنج مکھی ہنومان مندر کراچی تھا۔ تمام مسالک اور تمام مذاہب کی یکجہتی پر مبنی پاکستان کی اس پُرامن تصویر کی نقاشی کا سہرا تفہیم پراجیکٹ کے پراجیکٹ مینیجر جناب سمیع خان کے سر جاتا ہے۔ پنج مکھی ہنومان مندر کے منتظم اعلیٰ محترم مہاراج رام ناتھ صاحب نے وفد کا پُرتپاک استقبال کیا، بہت سے نوجوان علماء کرام کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ وہ سناتن دھرم کی کسی عبادت گاہ مین قدم رکھ رہے تھے، کئی طرح کے تصورات کے ساتھ سب اندر داخل ہوئے، محترم رام ناتھ صاحب نے مندر کے ہر ایک حصے کا دورہ کروایا اور اپنی مذہبی تعلیمات اور سناتن دھرم کے فلسفہ الہیات کا تعارف بھی پیش کرتے گئے۔ وہ سرزمین جہاں نفرت کی کاشتکاری اس قدر وسیع پیمانے پر ہوئی ہو کہ مسلمان مسلمان کا مخالف اور ایک دوسرے کا خون بہاتا رہا ہو، جہاں مذہب، رنگ، نسل اور زبان ہر امتیازی نقطے کو نفرت کے بازار کا ایندھن بنایا گیا ہو، ایسا اقدام نہ صرف ایک مستحسن اقدام ہے، بلکہ یہ اس نفرت کی آگ پر محبت کی بارانِ رحمت برسانے کے مترادف ہے۔
مندر کا دورہ کرتے ہوئے مولانا محمد احمد فاطمی نے اظہارِ خیال کیا۔ اسی طرح کئی سو سال کی تاریخ پر محیط اس مندر کی تاریخی اہمیت جان کر وفد کے تمام شرکاء نے اظہارِ مسرت کیا۔ مندر کے تفصیلی دورے کے بعد ایک ملی یکجہتی نشست کا اہتمام کیا گیا، جہاں تمام مذاہب و مسالک کے افراد ایک ساتھ اس باغ کا منظر پیش کر رہے تھے، جہاں ہر رنگ کا پھول اپنی انفرادیت کے ساتھ مگر دوسروں کے لیے امن کی خوشبو لیے موجود ہوتا ہے۔ نشست کا باقاعدہ آغاز پنڈت مکیش کمار نے خوش آمدید کہنے سے کیا، جس کے بعد مہاراج رام ناتھ صاحب نے اِس نشست میں سناتن دھرم کی بنیادی تعلیمات اور وطنِ عزیز پاکستان کے استحکام کے لیے، شعور، تفہیم اور تبیین کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ آج کی ہی نہیں ہمیشہ کی ضرورت ہے کہ ہم مذاہب کے پیروکار اپنی اولین حیثیت یعنی انسان ہونے کو پہچانیں اور انسان کو انسان سمجھ کر اس کا اور اس کے مقدسات کا احترام کرے، چونکہ یہ ایک بدیہی حقیقت اور مسلمہ اصول ہے کہ عزت دینے سے عزت ملتی ہے۔
ہم نے مل کر پاکستان کو مستحکم بھی کرنا ہے اور باعزت مملکت بھی بنانا ہے، ہم سب مل کر ہی پاکستان کا یہ روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں، جو آج یہاں اس محفل میں ہمارے سامنے ہے۔ علاوہ از این شرکاءِ وفد نے سناتن دھرم کے حوالے سے اپنے چند سوالات بھی پیش کیے، جن کا ان کو جواب فراہم کیا گیا۔ اس کے بعد مندر کی جانب سے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے خشک میوہ جات، پھل اور چائے پیش کی گئی، جو کہ گفتگو کے ہمراہ جاری رہی۔ اختتامی مرحلے میں سب نے مل کر پاکستان کے پرچم اپنے ہاتھوں میں تھام کر ایک ملی نغمہ پڑھا اور مہاراج رام ناتھ صاحب نے شعور فاونڈیشن، تفہیم پراجیکٹ اور ان کی ٹیم، اس کے علاوہ تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا کہ وہ تشریف لائے اور ان کو میزبانی کا موقع فراہم کیا، اسی طرح محترم جناب سمیع خان نے مہاراج اور مندر انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس حَسین نشست اور دورے کو منعقد کرنے میں بھرپور تعاون کیا، الوداع کہنے سے پہلے تمام حاضرین نے ایک یادگار گروپ فوٹو لی، تاکہ پاکستان کی یہ خوبصورت تصویر اور یہ سفر یادگار رہے۔