مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز کے چیف ایڈیٹر نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے صدر جو بایڈن کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا کیونکہ ان میں فیصلے کی قوت نہیں ہے۔
چارلی ہرٹ نے اس ضمن میں کہا کہ وہ کوئی لیڈر نہیں ہیں، ہمیشہ انہیں چلایا گیا ہے۔ باراک اوباما نے انہیں نائب صدر کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ واشنگٹن کے سیدھے سادے بوڑھے شخص تھے، جہاں وہ اپنی پوری زندگی پھنسے ہوئے تھے۔
یہ معروف نامہ نگار سمجھتا ہے کہ بایڈن نے اپنی زندگی کا زیادہ حصہ سیاسی محفلوں میں گزارا اور قائدانہ صلاحیتوں سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ جب وہ سینیٹر تھے تو ایک مائیکروفون کی طرح عمل کرتے تھے اور انہیں ہر بات کہنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا جبکہ اس بات کا صحیح یا غیر صحیح ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں تک جب اخبارات میں ان کے اظہارات پڑھے جاتے ہیں تو کوئی ہلچل نہیں مچاتے کیونکہ کوئی بھی انہیں سنجیدہ نہیں لیتا۔ سابق صدر باراک اوباما کے لئے نائب صدر کے عہدے پر ایسا شخص آئیڈیل تھا اور اوباما نے انہیں منتخب کر کے اپنے جوان ہونے کو متوازن بنانے کی کوشش کی۔
چارلی ہرٹ اپنی باتوں سے یوں نتیجہ لیتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ کے چوالیسویں صدر یعنی اوباما قطعاً یہ خیال نہیں تھا کہ جو بایڈن ان کے جانشین بنیں گے اور شاید مطمئن تھے کہ ان کے جانے کے بعد ایسا اتفاق نہیں ہوگا۔ اس کے باوجود اس وقت یہ نالائق شخص ﴿بایڈن﴾ ریاست ہائے متحدہ کی ہائی کمان پر حماقت آمیز اقدامات کے پیچھے چھپا ہوا ہے جبکہ صدارتی اختیارات اسے انتہائی خطرناک بنا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جو بایڈن جو رواں سال ۸۰ سال کے ہو رہے ہیں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ بوڑھے صدر میں تبدیل ہوگئے ہیں اور ناقدین تسلسل کے ساتھ ان پر ذہنی صلاحیتیوں کے کم ہونے کا الزام لگا رہے ہیں اور ان کی غلطیوں اور دماغی غیر حاٰضری کے پے در پے مواقع کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔