مہر خبررساں ایجنسی نے ایکسپریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے سانحہ مری کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں 15 افسران کو معطل کرکے انضباطی کارروائی کا حکم جاری کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سانحہ مری کی تحقیقاتی کمیٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو رپورٹ پیش کردی، جس میں انتظامیہ کی غلفت اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ سانحہ مری پر 15 افسران کو معطل کر کے انضباطی کارروائی کا حکم دے دیا ہے، کمشنر راولپنڈی کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش بھی کی جبکہ اسسٹنٹ کمشنر مری کو عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ قوم سے سانحہ مری کی شفاف تحقیقات کا وعدہ پورا کر دیا ہے، متعلقہ افسران کی غفلت کے باعث اتنا بڑا واقعہ پیش آیا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ سانحے کے وقت افسران کی غفلت سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تمام ادارے سوئے ہوئے ہیں، مشینری موجود تھی لیکن آدھا عملہ غائب تھا جبکہ ہائی ویز اور بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل رہا۔
کمیٹی نے 27 صفحات اور چار والیمز پر مشتمل رپورٹ میں افسران مقامی لوگوں اور سیاحوں کے بیانات بھی درج کیے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ متعلقہ محکموں کے افسران واٹس ایپ کے ذریعے ایک دوسرے کو صورت حال سے آگاہ کرتے رہے اور کوئی اقدامات نہیں کیے، افسران صورت حال کو سمجھ ہی نہیں سکے اور نہ ہی صورت حال کو سنجیدگی سے لیا جس کی وجہ سے پلان پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی افسران نے واٹس ایپ میسجز بھی تاخیر سے دیکھے، سی سی پی او، سی ٹی او، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جبکہ محکمہ جنگلات سمیت ریسکیو 1122 کے مقامی دفتر نے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے مستقبل میں ایسے ناخوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے مری میں محکمہ موسمیات کا باقاعدہ دفتر بنانے اور غیرقانونی تعمیرات کو منہدم کر کے سڑکیں چوڑی کرنے کی سفارش کی ہے۔
واضح رہے کہ سانحہ مری کے حوالے سے قائم کی جانے والی 5 رکنی انکوائری کمیٹی نے سرکاری افسران اور زندہ بچ جانے والے سیاحوں کے بیانات کو قلم بند کر کے 16 جنوری کو رپورٹ تیار کی تھی جسے اگلے روز وزیراعلیٰ پنجاب کو پیش کیا گیا تھا۔ سانحہ مری میں برفباری کی وجہ سے 22 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ ہوٹلوں اور غذائی اشیاء کو تاجروں نے کئی گنا مہنگا کردیا تھا۔