مہر خبررساں ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں منی بجٹ کے معاملے پر حکومتی اور اپوزیشن اراکین آمنے سامنے آگئے۔ اطلاعات کے مطابق اجلاس کا آغاز ہی اپوزیشن کے نکتہ اعتراض سے ہوا۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ کا سن رہے ہیں، اس پر ایوان کو بتایا جائے حقیقت کیا ہے؟
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ 1971ء کے سرنڈر کے بعد اس سے زیادہ خطرناک سرنڈر اب کیا جارہا ہے، حکمران ملک کی خودمختاری کو سرنڈر کرنے جارہے ہیں، اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کی برانچ بن چکا جبکہ اگلے مرحلے پر نیوکلیئر طاقت پر سمجھوتہ کیا جائے گا، ہم منی بجٹ اور سٹیٹ بینک بل کی ڈٹ کر مخالفت کریں گے۔
جمیعت علما اسلام (ف) کے زاہد درانی کے نکتہ اعتراض میں مائیک بند کرنے اور وزیر خارجہ کو فلور دینے پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کے ساتھ کورم کی نشاندہی کردی البتہ کورم مکمل کرکے حکومت نے اپوزیشن کا حربہ ناکام بنا دیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ غور کرنا ہوگا پاکستان جن مالی مشکلات کا شکار ہے اس کے پیچھے کونسے عوامل کارفرما ہیں، معاشی تحفظ کی ذمہ ہماری ہے جسے نبھائیں گے، جوہری قوت پر قومی اتفاق رائے تھا اور ہے اگر اپوزیشن کے ذہن میں کوئی وسوسہ ہے تو نکال دے۔
وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن کے سوالات پر حکومت نے بتایا کہ 36 کروڑ کی گاڑیوں کی نیلامی کی گئی کوئی نئی گاڑی وزیراعظم یا کابینہ کے لیے نہیں خریدی گئی۔ پاکستان قومی اسمبلی کے اجلاس کو کل شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا ہے۔