مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے مسلمانوں کی علمی، فکری اور ثقافتی بنیادوں کومضبوط اور مستحکم کیا ، آپ جو بات دوسروں سے کہتے تھے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے تھے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بتاریخ یکم رجب المرجب ۵۷ ھ یوم جمعہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے .
آپ کا اسم گرامی " لوح محفوظ" اورسرورکائنات کی تعیین کے مطابق " محمد" تھا اور آپ کی کنیت " ابوجعفر" تھی، اورآپ کے القاب کثیرتھے، جن میں باقر،شاکر،ہادی زیادہ مشہورہیں ۔ رسول اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے آپ کی پیدائش سے قبل ہی اپنے ایک خاص صحابی جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کو آپ کی ولادت باسعادت کی خبر دیتے ہوئے آپ کو باقر کا لقب دیا تھا - امام محمد باقر علیہ السلام اپنے دور کی عظیم الشان علمی شخصیت اور ہر لحاظ سے رسول اسلام (ص) کے جانشین و وارث تھے - جب بھی ہاشمیوں کے علم و تقوی اور شجاعت و سخاوت کا ذکر ہوتا ، لوگ آپ کا نام لیتے تھے- شخصیت میں کشش ، عفو و درگذر، بے پناہ علم و تقوی آپ کی اہم خصوصیات ہیں -
آپ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں پیدا ہوئے ۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیداورمروان بن حکم بادشاہ رہے ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا ۔ پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپ کے والد ماجد کو درجہ شہادت پرفائز کر دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، اسی دور میں ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک بادشاہ وقت رہے ۔
حضرت امام باقر (ع) ہمیشہ انتہائی توجہ اور ظرافت کے ساتھ اپنے دور کے علوم کا تجزیہ و تحلیل کرتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر (ع) کی امامت کے زمانے میں سنہ 96 ھ ق سے کہ جو بنی امیہ کی حکومت کے زوال کا زمانہ تھا ۔ آپ کو مسلمانوں کی فکری اور ثقافتی بنیادوں کو مستحکم کرنے کا موقع ملا ۔ آپ (ع) اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق (ع) کے دور میں بہت سے علوم کو ترقی ملی ۔حضرت امام محمد باقر (ع) اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھے ۔آپ ہمیشہ نیکی، سخاوت، غربا کی امداد اور بیمار افراد کی عیادت کی تاکید فرماتے تھے ۔ آپ (ع) کے عظیم فرامین اور اخلاقی پند و نصیحت آپ کی عملی زندگي میں جلوہ گر تھے ۔ آپ جو بات دوسروں سے کہتے سب سے پہلے خود اس پر عمل کرتے تھے.
علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی کا کہنا ہےکہ " مات مسموماکابیہ“ آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے (نورالابصار ص ۳۱ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔
آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرخورانی کے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی (جنات الخلودص ۲۶ ،دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۷۸) ۔
شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اورکہا کہ بیٹامیرے کانوں میں میرے والدماجدکی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلدبلارہے ہیں (نورالابصار ص ۱۳۱) ۔ آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طورسے ہدایت کی کیونکہ امام را جزامام نشوید امام کوامام ہی غسل دے سکتاہے (شواہدالنبوت ص ۱۸۱) ۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہاکہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اورمیرے ماتم پرصرف کرنااورایساانتظام کرناکہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میرے مظلمومیت کاماتم کیاجائے (جلاء العیون ص ۲۶۴) ۔