مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری صاحب نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رہ) کی 32 ویں برسی کی مناسبت سے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ اسلامی نظام میں عوامی مشکلات کو حل کرنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان  کے سربراہ علامہ ناصرعباس جعفری صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل   ہیں۔ پاکستان کی  معروف سیاسی ومذہبی شخصیت ہیں اور  کئی سالوں سے مجلس وحدت مسلمین کے سکریٹری جنرل کے عہدے پرفائز  ہیں۔ امام خمینی (رضوان اللہ علیہ )  کی برسی کے موقع پر علامہ ناصر عباس جعفری نے مہر نیوز ایجنسی کے ساتھ ایک مختصر گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں  پیش کی جاتی ہے۔

مہر نیوز: سب سے پہلے ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت دیا، سب سے پہلے آپ  امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے بارے میں کچھ بیان کریں ، پھر اس کے ساتھ یہ بتائیں کہ امام خمینی(رہ) کے مقابلے پوری دنیا کھڑی تھی،لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود امام راحل (رہ) کی جدوجہد کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوئی؟

علامہ راجہ ناصر : حضرت امام خمینی (رہ) کی عظیم  شخصیت کا تعلق آل رسول (ص) اور خاندان عصمت و طہارت سے تھا۔ وہ سرورکائنات اور رسول خدا(ص) کی عظیم بیٹی  کی نسل سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی رگوں میں  پاکیزہ خون دوڑتا تھا،    ایسا خون جو سراپا غیرت ، وفا، حیاء وپاک دامنی ، عزت نفس  اور انسانی  کرامت کا  مظہر ہے۔ حضرت اما م خمینی (رہ ) نے اپنی زندگی کے کئی مراحل گزارے  ہیں،جن میں سے  ایک مرحلہ تہذیب نفس  کا ہے اور دوسرا تعلیم کا ہے۔  انہوں نے ان دونوں مراحل میں رشد اور کمال کے سفر کو طے کیا ۔ حضرت امام خمینی (رہ)  علمی اعتبار سے فقہ و فقاہت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے اور دوسری طرف تہذیب نفس ، سیروسلوک ، باطنی طہارت اور جہاد اکبر (جو اپنے نفس کے ساتھ ہوتا ہے) کے مراحل طے کرتے ہوئے عارف باللہ بن گئے۔ وہ  دونوں پہلوؤں سے ہمارے لئے نمونہ عمل اوررول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے تعلیم کے حصول کے لئے سخت محنت کی اور اس سے کہیں بڑھ کر تہذیب نفس کے لئے جدوجہد کی۔ انہیں بہترین استاد اور مربی میسر آئے۔ جب ان کا باطن بدل گیا اور اندر کی دنیا میں تبدیلی آگئی توپھر  انہوں نے  انسانی معاشرے کو بدلنے کا کام شروع کیا۔  یہی انبیاء (ع) کا کام ہے اور یہی علماءکی بھی  ذمہ داری ہے، جن کو انبیاء کا وارث کہا گیا ہے ۔ وہ  جتنا عرصہ نجف اشرف میں رہے ،  مولا علی (ع) کے در پہ حاضری دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی  اور اس دروازے سے منسلک رہے۔

امام خمینی (رہ)   نے  مکتب اسلام و اہل بیت میں جنم لیا،الٰہی اور عاشورائی مکتب میں پرورش پائی اور تہذیب نفس کے ذریعے خود کو ہر طرح کی اسیری سے چھڑا کر مکمل آزادی حاصل کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرے  انسانوں اور معاشرے کو زمانے کے فرعونوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے میدان میں قدم رکھا " قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ  أَن تَقُومُوا لِلَّهِ " اے نبی کریم آپ ان سے کہہ دیں  میں  تمہیں صرف ایک چیز کی  نصیحت کرتا ہوں وہ یہ کہ تمہارا قیام اللہ کی خاطر ہونا چاہیے ۔

امام خمینی قدس سرہ نے اپنے زمانے کے فرعونوں کے خلاف تن تنہا قیام کیا۔طاغوت  یہ سمجھ رہا تھا کہ انہیں اگر جلاوطن کر نے کے ذریعے ایک ملت کو اپنے امام و راہنما سے دور کرنے میں کامیابی ملے گی، لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور عمل صالح انجام دیتے ہیں، اللہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت  ڈال دیتا ہے ۔اسی لئے  امام خمینی ؒ ہمیشہ  کہتے تھے کہ اسلامی انقلاب کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے نوازا، تمام فتوحات اللہ نے دیں۔ جب  انسان کا خدا کی قدرت پر ایمان ہو اور وہ  خود کو اللہ کے حوالے کردے تو  خدا اس کا وکیل بن جاتا ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ ہی اس کے امور کی تدبیرکرتا ہے ،تو  پھر اس کو کون شکست دے سکتا ہے؟  کون اسے خدا کے راستے سے ہٹا سکتا ہے؟ کون اسے ڈرا سکتا ہے؟ کیا نمرود حضرت ابراہیم علیہ السلام کو  آگ سے ڈرا سکا؟ کیا فرعون کی خدائی حضرت موسیٰ ؑ کو راستے سے ہٹاسکی؟؟کیا اللہ نے مدد نہیں کی؟اور فرعون نیل میں غرق نہ ہوا؟لہذا جب انسان کا ایمان اللہ پر مضبوط ہوجاتا ہے تووہ  پرواز کرتا ہے۔ حضرت امام خمینی ؒ بھی  مکتب ابراہیم خلیل ؑ سے تعلق رکھتے تھے ،امام خمینی مکتب موسیؑ ٰ کلیم اللہ سے تعلق رکھتے تھے ،مکتب پیغمبرﷺ اور کربلا سے تعلق رکھتے تھے ۔ اسی لئے  زمانے کے فرعون و نمرود اور یزید کے سامنے اٹھ کھڑے ہوئے  اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔

مہر نیوز: امام خمینی (رہ)   ایک عالم دین تھے ۔انہوں نے اپنی  جدوجہد کے ذریعے معاشرے کو ذلت سے نکالا۔  آپ کی نظر میں موجودہ دور میں علمائے کرام کو مختلف مشکلات کے حل  اور معاشرے میں مفید ثابت ہونے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟

علامہ راجہ ناصر : جہاد اکبرکا مطلب  اپنے نفس پر کنٹرول حاصل کرنا اور اسے شکست دینا ہے اور اپنے نفس کو شکست دینا ایک اہم کامیابی ہے ۔ امام خمینی (رہ)  اس تربیت کے مرحلے سے گزرے جو تہذیب نفس کے لئے ضروری ہوتا ہے اور وہ ایک عظیم فقیہ بن گئے۔  آج کے علماء کے لئے بھی ضروری ہے کہ انسانی معاشرے میں اصلاحات  اور تبدیلی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں ، جو انبیاء کی ذمہ داریاں ہے اور علماء کو وارث انبیاء کہا گیا ہے ۔ موجودہ دور کے  فرعونوں اور یزیدی طاقتوں کے سامنے اٹھ کھڑے ہوں اور معاشرے کو خواہشات نفسانی اور ہوا  و ہوس اور نفس کی اسیری سے نجات دلانے کے لئے میدان عمل میں قدم رکھیں۔

علمائے کرام امام خمینی (رہ ) کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے انسانوں کو اندرونی اور بیرونی شیطانوں سے نجات دلائیں اور داعیا اللہ کا نعرہ بلند کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کے سوا  کسی کی بندگی نہیں ہوسکتی، کسی کے آگے سرنہیں جھکایا جا سکتا  ، دولت اور اقتدار کے بتوں  کے آگے نہیں جھکنا ہے اور اپنے نفس کے مقابلے میں  بت شکن کا کردار ادا کرنا ہے۔ جب علماء نفس امارہ کے بت کو پاش پاش کرلینگےتو پھر جو بیرونی لات و منات ہیں،یا جو شیطان کے حامی و طرفدار اس  ظاہری دنیا  میں موجود ہیں، ان کے  غرور اور تکبر کے بت کو پاش پاش کرنا ، ان کے خوفناک زندانوں کوتوڑنااور ان کی یلغار کا مقابلہ کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔

آزادی کا سفر انسان کے اندر سے شروع ہوتا ہے۔ جو شخص  کرسی کا بھوکا ہے،  اقتدار، شہرت، پروٹوکول  اور مال دولت کا بھوکا ہے وہ اندرونی بتوں کا اسیرہوتا ہے ۔لہذا  جو خود قیدی ہو وہ دوسروں کو کیسے رہائی دلا سکتا ہے؟ اس لئے علمائے کرام  کو چاہیے کہ پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کریں اور اپنے نفس کے ساتھ جہاد کریں اور پھر معاشرے کی نجات کے لئے کوشش کریں۔

مہر نیوز: آپ کی نظر میں عالم اسلام کے لئے امام خمینی (رہ) کا اہم ترین پیغام  کیا ہے؟

ایم ڈبلیو ام کے سربراہ: تمام اسلامی ممالک حضرت امام خمینی کو اپنا نمونہ عمل اور  رول ماڈل قرار دیتے ہوئے اپنے ہاں امریکی مداخلت کو ختم کر سکتے ہیں۔ امام خمینی ایسی ہستیاں تاریخ ساز ہوتی ہیں جن کا دنیا صدیاں انتظار کرتی ہے اور جنہیں صبح محشر تک یاد رکھا جائے گا۔  ایرانی قوم کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ مبارکباد کی مستحق ہے کہ جسے امام خمینی جیسی عظیم شخصیت ملی ، جس کے دل میں امت کا درد تھا۔ جنہوں نے مسلک و مکتب سے بالا تر ہو کر مشرق سے مغرب تک ہر جگہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے موثر آواز بلند کی اور انہیں اپنی صفوں میں اتحاد اور اتفاق کو رواج دینے پر زور دیا۔ رہبر کبیر کا پیغام "وحدت" ہے اور جس دن ہم نے وحدت ، اتحاد اور یکجہتی کو اپنا شعار بنا لیا اس دن امریکہ اور اس کی حواری قوتوں کا ناپاک وجود پاک سرزمین سے ہمیشہ کے لئے نابود ہو جائے گا۔امام خمینی نے مسلک و مذہب سے ہٹ کر ہر جگہ اور ہر سطح پر ظلم و ستم کی مخالفت کی اور اسلامی اقدار کو عالمی سطح پر رواج دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ امام خمینی کا اہم پیغام "وحدت " ہے، لہذا ہمیں فرقہ واریت سے دور رہنا ہے اور وحدت کا پرچار کرنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اس ملک میں شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے، لیکن کچھ استعماری ایجنٹ ہیں کہ جو امریکی اشاروں پر چلتے ہوئے اس ملک کو فرقہ واریت کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امید ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے اتحاد سے ان کی اس سازش کو ناکام بنا دے گی۔

مہر نیوز : دنیا بھر میں شیعہ مسلمانوں کو دبانے کے سلسلے میں عالمی طاقتیں پورا  زور لگات رہی ہیں اس کی اصل وجہ کیا ہے؟

راجہ ناصر : عالمی استعمار  اور تکفیریت و  داعش ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔  امام خمینی فلسطین و کشمیر سمیت دنیا بھر کے مظلوموں  کے سب سے بڑے  حامی رہے۔اسرائیل سمیت دنیا بھر کے غاصبوں کے خلاف ان کا موقف ہمیشہ ٹھوس اور اٹل تھا۔مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرنے میں امام خمینی (رہ ) نے جو کردار ادا کیا اور  اس مسئلے کو زندہ کرکے عوامی مسئلے کی سطح پر پیش کیا ،  ہمیں  اس کی سزا دی جارہی ہے۔ مظلوموں کی حمایت کی وجہ سے عالمی شیطانی طاقتیں ،شیعہ مسلمانوں خلاف متحد ہوگئی ہیں۔  امام خمینی (رہ) نے ہمیں عالمی باطل قوتوں سے مقابلہ کرنا سکھایا اور بتا یا کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن   امریکہ اور ہم اس شیطان کے خلاف آج بھی میدان عمل میں ہیں۔  ہم ظالم کے آگے سر نہیں جھکاتے اور مظلوم کا ساتھ نہیں چھوڑتے، کیونکہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام  نے اپنی شہادت سے قبل ہمیں مظلوموں کا ساتھ دینے اور ظالموں کا ڈٹ کرمقابلہ کرنے کی وصیت اور سفارش کی ہے۔

مہر نیوز : دنیا بھر میں رونما ہونے والے انقلابات اور  انقلاب اسلامی ایران کے درمیان نمایاں فرق کے سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

علامہ راجہ ناصر صاحب : انقلاب اسلامی کی سب سے بڑی  خصوصیت یہ ہے کہ اس نے مذہب و مسلک کی قید سے بالا تر ہو کر انسانی ذہنوں کو بیدار کیا اور بالخصوص ملت اسلامیہ کو استعماری طاقتوں سے آزادی کے حصول کا راستہ دکھایا ۔ انقلاب کسی علاقہ، سرزمین، یا مذہب سے  مختص نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے اثرات کو روکا جا سکتا ہے۔ فرانس، روس، چین یا دوسرے ممالک میں انقلاب آئے تو انہوں نے بھی باقی اقوام پر اپنے اثرات چھوڑے ، لیکن ایران میں آنے والے انقلاب اور باقی ممالک میں آنے والے انقلابات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایران کا انقلاب "اسلامی" یعنی دین مبین اسلام کے بنیادی اصولوں پر قائم ہے جبکہ دوسرے ممالک میں آنے والے انقلابات خاص اقتصادی، یا معاشرتی نظرئیے کی بنیاد پر استوارتھے، جن کا دین اسلام سے براہ راست کوئی رابطہ نہ تھا۔

مہر نیوز : آخر میں اگر کوئی اہم نکتہ ہو تو اسے بیان کریں؟

علامہ راجہ ناصر : حضرت امام خمینی (رہ) حریت پسندوں کی امیدوں کا مرکزتھے، دنیا بھر کے مستضعفین اورمحرومین امام خمینی (رہ)  کو اپنے درد کا مداوا سمجھتے تھے۔  اسلامی انقلاب کی کامیابی امام خمینی (رہ) کے غدیر اور عاشورا پر کامل ایمان کا نتیجہ تھا۔  عالم غربت میں پر وان چڑھنے والا ایک فقیہ دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بن گیا، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تمام سامراجی اور استعماری طاقتوں کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنا امام خمینی (رہ)  کا عظیم کارنامہ تھا۔ وحدت اسلامی کے فلسفے کو موجودہ معاشرے میں عملی شکل دینے میں امام خمینی (رہ)  نے کلیدی کردار ادا کیا۔ قبلہ اول پر غاصب صہیونی قبضے کے خلاف امام خمینی (رہ) کا نقطہ نظر آج عالم بشریت  اور دنیائے اسلام نمونہ عمل بن گیا ہے۔  حضرت امام خمینی نے " اسلامیت اور جمہوریت " کی بنیاد پر حکومت قائم کرکے دنیا کے سامنے ایک جدید نظریہ پیش کیا اور ثابت کردیا کہ اسلامی نظام میں عوامی مشکلات کو برطرف کرنے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای امام خمینی (رہ) کے اسلامی افکار و نظریات پر گامزن ہیں اور وہ آج  دنیا بھر کے مظلوموں اور محروموں کے لئے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہیں۔