مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ملیکۃ العرب ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا نے نہ صرف اپنے مال بلکہ اپنی جان ، اپنی تمام تر صلاحیتوں ، توانائیوں اور صبر و استقامت کے ساتھ اسلام کے فروغ میں پیغمبر اسلام (ص) کا بھر پور تعاون کیا۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا پیغمبر اسلام پر ایمان لانے والی پہلی خاتون ہیں ۔ حضرت خدیجہ تحریک اسلام میں صفحہ اول پر رہیں اور یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم ص نے سب سے پہلے ایمان لانے والے امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت خدیجہ ( س ) سے اسلام کے عنوان سے بیعت لی اور پورا دین ان دونوں ہستیوں کو سکھایا حضرت خدیجہ (س ) سے فرمایا کہ کیا آپ کو میری بات سمجھ میں آگئی ہے؟ حضرت خدیجہ نے فرمایا مجھے آپ کی بات سمجھ میں آگئی ہے اور میں آپ کی تصدیق کرتی ہوں آپ کی بیعت کرتی ہوں اور آپ کے سامنے تسلیم ہوں، راضی ہوں، آنحضور نے پھر فرمایا کہ اے خدیجہ سلام اللہ علیھا یہ علی مرتضی( ع) ہیں اور آپ کے امام ہیں اور میرے بعد امت کے اور لوگوں کے اور مومنین کے امام ہیں۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا میں آپ کے اس جملے کی بھی تصدیق کرتی ہوں اور اپنے امام کے عنوان سے علی مرتضی علیہ السلام کی بیعت کرتی ہوں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کون ہے جو حضرت خدیجہ (س ) کا مثل ہو۔ حضرت خدیجہ (س ) وہ ہستی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے میری تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب اور میرا انکار کر رہے تھے۔ اور انہوں نے اپنے مال کے ذریعہ سے میری مدد کی اور انہوں نے دین میں میری نصرت کی۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی سیرت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جب آپ نے رسول اکرم سے شادی کی اور وہاں کی عیب جو خواتین آئیں اور آپ کو کہنے لگیں معاذاللہ معاذاللہ آپ نے ذلت کو گلے لگایا ہے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا محمد (ص) وہ ہیں جن کو میں نے قول اور فعل میں امین پایا، سچا پایا اور اپنے خاندان میں کریم اور شرافتمند پایا۔ آپ نے ان خواتین کو مخاطب کیا کہ محمد (ص ) جیسا صادق و امین شخص اگر اس پورے عرب معاشرے میں ہے تو مجھے دکھائیں اور وہ خواتین لاجواب ہوئیں اور وہاں سے مایوسی کی حالت میں چلی گئیں۔
حضرت خدیجہ (س ) نے اپنی بصیرت کا اظہار کیا اور آپ نے رسول اکرم (ص) سے شادی کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خالصتا دینی و الہی اقدار کے مطابق تھا۔۔
حضرت خدیجه کبری سلام الله علیها کی وصیتیں:
جب آپ کی بیماری سنجیدہ حالت اختیار کر گئی توآپ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا: "یا رسول اللّه! اِسمَع وصایای‘‘
’’اے رسول خداﷺ! "میری وصیتوں کو سن لیجئے!‘‘
" أولا، فإنی قاصرةٌ فی حقِک، فاعفُنی ۔یا رسول اللّه:پہلی بات یہ کہ میں آپ کا حق ادا کرنے میں قاصر رہی ہوں؛ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے معاف فرمائیں!"۔.
رسول خداﷺ نے فرمایا: «حاشا و کلا، ما رأیتُ منکِ تقصیرا فقد بلغتِ جهدکِ و تعبتِ فی ولدی غایةَ التعبِ، و لقد بذلتِ أموالَکِ و صرفتِ فی سبیل اللّه مالَکِ
ہرگز ایسا نہیں ہے،، نه صرف یہ کہ میں نے آپ سے تمام رفاقت ازدواجی میں معمولی سے بھی کوتاہی و غلطی نہیں دیکھی بلکہ آپ نے بچوں کی تربیت و دیکھ بھال میں اپنی پوری کوشش کی ہے ، اس راہ میں سختیوں کو تحمل کیا ہے اور آپ کے پاس جو بھی مال تھا آپ نے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔»
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: «یا رسول اللّه! الوصیةُ الثانیةُ؛ أوصیکَ بهذه- أشارت إلى فاطمةَ علیها السّلام- فإنها یتیمةٌ غریبةٌ من بعدی فلا یۆذینها أحدٌ من نساءِ قریش و لا یلطمن خدَّها و لا یصحن فی وجهَها و لا یرینها مکروها
اور حضرت فاطمہ کی طرف اشارہ کرکے اپنی دوسری وصیت اس طرح بیان کی کہ میری بیٹی فاطمہ میری وفات کے بعد یتیم ، تنہا ور اکیلی ہو جائے گی،اس کا خیال رکھئے گا کہ قریش کی عورتوں میں سے کوئی اسے تنگ نہ کرے، اسے تکلیف نہ دے اس پر ہاتھ نہ اٹھائے کوئی اس کے سامنے آواز بلند نہ کرے(چیخے چلائے نہیں) اور کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس سے فاطمہ ناراض ہو! »
"و أما الوصیةُ الثالثةُ، فإنی أقولها لابنتى فاطمة علیها السّلام و هی تقول لک، فإنی مستحیةٌ منکَ یا رسول اللّه"
حضرت خدیجہ نے اپنی تیسری وصیت کے بارے میں کہا کہ میں اسے اپنی نور نظر فاطمه علیہا السلام سے کہوں گی اور وہ آپ سے کہہ دے گی، اس لئے کہ مجھے آپ سے براہ راست کہتے ہوئے شرم محسوس ہو تی ہے۔»
فقام النبی صلّى اللّه علیه و آله و خرج من الحجرة، فدعت بفاطمة علیها السّلام و قالت :
یہ سننے کے بعدرسول خدا (ص) کھڑے ہو گئے اور حجرے سے باہر تشریف لے گئے. جناب خدیجه کبریٰ سلام اللہ علیہا نے حضرت فاطمه زهرا علیہاالسّلام کو اپنے نزدیک بلایا ور کہا:
"یا حبیبتی! و قرة عینی، قولی لأبیک: إن أمی تقول: إنی خائفة من القبر، أرید منکَ رداءَکَ الذی تلبِسُه حین نزول الوحی؛ تکفننی فیه"
" اے میری نور نظر بیٹی ! اوراے میرے قلب کی خوشی و راحت کے سامان! اپنے بابا سے کہو کہ میری ماں یہ کہہ رہی ہے :مجھے قبر سے خوف محسوس ہوتا ہے میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ مجھے اس عباء کا کفن دیجئے گا کہ جس میں آپ پر وحی نازل ہوئی تھی۔"»
حضرت فاطمه علیہاالسّلام فوراً حجرے سے باہر تشریف لے گئیں اور اپنی والدہ حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا کا پیغام رسول خدا(ص) تک پہنچا دیا۔.
حضرت رسول اللہ ﷺ فوراً اٹھے اور آپ نے اپنی عبائے مبارک حضرت فاطمه علیہاالسّلام کو دے دی. جب حضرت زہرا علیہاالسّلام رسول اللہ (ص) کی وہ عبا ء حضرت خدیجه علیہاالسّلام کو دی تووہ بہت زیادہ خوش ہوئیں!.
جب حضرت خدیجه علیہاالسّلام کی رحلت ہو گئی تو رسول خدا(ص) نے خود بنفس نفیس آپ کو غسل دیا اور حنوط کیا۔ جب کفنانے کا وقت آیا تو حضرت جبرئیل امینؑ نازل ہوئے اورعرض کیا:
" یا رسول اللہ (ص) ! خداوندنے آپ کو ہدیہ سلام دیا ہے اور نہایت خاص صورت میں تحیت و اکرام کیا ہے اورآپ سےفرماتا ہے":
" إن کفن خدیجة من عندنا، فإنها بذلت مالها فی سبیلنا: آپ کی شریکہ حیات خدیجه کا کفن ہمارے ذمہ ہےاس لئے کہ اس نے اپنی تمام تر ثروت کو ہماری راہ میں لٹا دیا"
اس کے بعد حضرت جبرئیل امین نے رسول اکرم(ص) کو کفن دیا:
"یا رسول اللّه! هذا کفن خدیجة و هو من أکفان الجنة، أهداه اللّه إلیها"
" اے رسول خدا! یہ کفن خدیجه ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنتی کپڑوں سے تیار کر کے انہیں ہدیہ کیا ہے!"
حضرت رسول خدا(ص) نے پہلے اپنی شریکہ حیات کو اپنی عبا کا کفن دیا اور اس کے بعد جنتی کپڑوں سے تیار کردہ کفن آپ کو دیا اور اس طرح حضرت خدیجه سلام اللہ علیہا دو کفنوں کے ساتھ سپرد خاک کی گئیں؛ انھیں ایک کفن اللہ تعالی کی طرف ملا اور دوسرا کفن رسول خدا (ص) نے عطا کیا!۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شجره طوبى، الشیخ محمد مهدی الحائری، ج۲، ص ۲۳۴
ابن حجرالاصابه، ج۴، ص۲۷۵
شرهانی، حیاة السيدة خديجه، ص ٢٨٢
محلاتی ، ریاحین الشریعه، ج۲، ص۴۱۲