پانچ فروری کو سردیوں میں مہم جوئی کے دوران کے ٹو پر لاپتہ ہونے والے 45 سالہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی موت کی تصدیق کردی گئی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پانچ فروری کو سردیوں میں مہم جوئی کے دوران کے ٹو پر لاپتہ ہونے والے 45 سالہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ کی موت کی تصدیق کردی گئی ہے۔ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے حکومت گلگت ٹوارزم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں والد کی موت کی تصدیق کی ہے، گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجہ ناصر خان پریس کانفرنس میں ساجد سد پارہ کے ہمراہ موجود ہیں۔ ساجد سدپارہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا مشکور ہوں، عسکری ایوی ایشن کےبہادر پائلٹس کا بھی مشکور ہوں۔ ساجد سدپارہ نے کہا کہ اپنے والد کا مشن جاری رکھوں گا اوران کا خواب پورا کروں گا۔صوبائی وزیر سیاحت راجہ ناصر نے کہا کہ علی سدپارہ کا شمار دنیا کے بہترین کوہ پیماوں میں ہوتا تھا، سرچ آپریشن میں پاک فوج نےتمام وسائل اور ٹیکنالوجی استعمال کی، آئس لینڈ اور چلی کی گورنمنٹ نے بھی فنی معاونت فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ سرچ آپریشن کے لیے مقامی کوہ پیماوں نے رضاکارانہ خدمات پیش کیں، علی سدپارہ کےنام سےکوہ پیمائی کےلئےاسکول قائم کیا جائیگا، حادثات کے شکار کوہ پیماؤں کے خاندانوں کی کفالت کا قانون بنایا جائیگا۔

45 سالہ علی سدپارہ کو موسم سرما میں دنیا کی بلند ترین چوٹی نانگا پربت سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کوہ پیمائی میں اپنی مہارت کی وجہ سے انہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔

یاد رہے کہ پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ موسم سرما میں کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی میں مصروف تھے اور اس مہم جوئی میں ان کے ساتھ ان کے بیٹے ساجد سدپارہ سمیت غیر ملکی کوہ پیما بھی تھے۔

دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں سر کرنے کی مہم پر جانے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سد پارہ اور دیگر دو کوہ پیماؤں کو لاپتہ ہوئے 10 دن سے زائد ہوگئے ہیں۔