مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کی ریٹائرڈ فوجی کرنل اور کابل میں سابق امریکی سفارتکار مری این رائٹ نے ایرانی ٹی وی چینل کے پروگرام " سرحد بغیر " میں مرتضی غرقی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ ایران خطے کا اہم ملک ہےاور بہت سے علاقائی ممالک ایرانی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ امریکہ کو علاقائی ممالک اور اقوام کے لئے ایران کے نمونہ عمل بننے پرسخت تشویش لاحق ہے۔
مری این رائٹ نے کہا کہ امریکہ کا افغانستان میں دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ اس نے کہا کہ جب میں کابل میں تھی تب امریکہ کے سابق صدر بش نے ایران کو شرارت کا محور قراردیا تھا اور میں امریکی صدر کے اس بیان پر محو حیرت تھی کیونکہ ایران خود دہشت گردی کا شکارتھا ۔ دہشت گردوں نے کئی ہزار ایرانیوں کو شہید کردیا ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی کلیدی کردارادا کررہا تھا۔ اس نے کہا کہ 11 سمتر کے واقعہ کو امریکہ نے بہانہ بنا کر اپنی فوج افغانستان میں روانہ کی۔ 19 میں سے 15 دہشت گردوں کا تعلق سعودی عرب سے تھا 11 ستمبر کے واقعہ میں کوئی افغانی دہشت گرد ملوث ہی نہیں تھا۔ القاعدہ کو بھی خود امریکہ نے ہی تشکیل دیا تھا داعش کی سرپرستی بھی امریکہ ہی کررہا تھا۔ 11 ستمبر کے واقعہ میں القاعدہ کی تنبیہ ضروری تھی لیکن کئی ہزار امریکی فوجی افغانستان میں بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی۔
مری این رائٹ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کی متضاد پالیسی کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے مختلف گروہوں کے ساتھ رابطے ہیں اور حالات اور شرائط کے ساتھ پالیسیوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔مثلا امریکہ شام میں ایک دہشت گرد گروہ کی حمایت کرتا تھا اورافغانستان میں اسی دہشت گرد گروہ کے دوسرے دھڑے کے خلاف کارروائی کرتا تھا۔
مری رائٹ نے مشرق وسطی اور طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت کے بغیر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا کسی نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ جبکہ مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسیاں مشکلات کا باعث بن گئی ہیں ۔ امریکہ ایک طرف جمہوریت کی حمایت کرتا ہے اور دوسری طرف ڈکٹیٹر ممالک کی حمایت کررہا ہے امریکہ سعودی عرب جیسے ملک کو پیشرفتہ ہتھیار فروخت کررہا ہے جو دہشت گردی کے فروغ کا اصلی مرکز ہے اور جہاں جمہوریت کے بجائے ڈکٹیٹر حکومت قائم ہے۔