مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، اے اللہ، اس کو دوست رکھ جو حسین (ع) کو دوست رکھے اور اسے دشمن رکھ جو حسین (ع) سے دشمنی رکھے۔ انسانی تاریخ میں ابتدا سے آج تک حق وباطل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئی ہیں لیکن ان تمام جنگوں میں وہ معرکہ اپنی جگہ پر بے مثل ہے جو کربلا کے میدان میں رونما ہوا، یہ معرکہ اس اعتبار سے بھی بے مثال ہے کہ اس میں تلواروں پر خون کی دھاروں نے، برچھیوں پر سینوں نے اورتیروں پر گلوں نے فتح وکامیابی حاصل کی، اس طرح اس جنگ کا مظلوم آج تک محترم فاتح اورہر انصاف پسند انسان کی آنکھوں کا تارا ہے جبکہ ظالم ہمیشہ کے لئے شکست خوردہ اورانسانیت کی نگاہ میں قابل نفرت اور قابل مذمت ہے.
پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے نواسے سید الشہداءحضرت امام حسین (ع) کی ولادت باسعادت ۳ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کی پرورش سایہٴ نبوت، موضع رسالت، اور معدن علم میں ہوئی۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین (ع) ابتدا ہے اسماعیل
آپ بھی اپنے بھائی امام حسن(ع) کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ہیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اہل الجنة میں سے ایک ہیں،
جن کے لیے نبوت کی زبان اطہر نے ارشاد فرمایاالحسن والحسین سیداشباب اھل الجنۃ(حسن (ع) اور حسین (ع) جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں)
آپ نے رسول اکرم (ص) کے ساتھ چھ سال تک کی زندگی گزاری، اورآپ پر وہ تمام مصیبتیں پڑیں جو وفات رسول کے بعد اہل بیت نبی پرپڑیں یہاں تک کہ آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کو زہر سے شہید کردیا گیا او رآ پ نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ گرامی، پدر بزرگوار اور اپنے بھائی کے غم کو برداشت کیا۔
آل محمد(ص)کی سرداری مسلمات سے ہے علمائے کرام کااس پراتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشادفرمایاہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے والدبزرگواریعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔
حضرت حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت ص کوایک دن بہت زیادہ مسرورپاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیاوجہ ہے ارشادفرمایاکہ مجہے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کے سردارہیں اوران کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہترہیں (کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہوگئی کہ حضرت علی صرف سیدہی نہ تہے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشادفرمایاکہ میں حسنین کودوست رکھتاہوں اورجوانہیں دوست رکہے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتاہوں۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کواس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کواورایک کندھے پرامام حسین کوبٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کامنہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نمازپڑھ رہے تہے اورحسنین آپ کی پشت پرسوارہو گئے کسی نے روکناچاہاتوحضرت نے اشارہ سے منع کردیا۔
جامع ترمذی ،نسائی اورابوداؤد نے لکھاہے کہ آنحضرت ایک دن محوخطبہ تھے کہ حسنین(ع) آگئے اورحسین(ع) کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجہے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیااورمنبرسے اترکرانہیں آغوش میں اٹھالیااورمنبر پرتشریف لے جاکر فرمایا: ھذا حسین فعرفوہ،
پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین کا دوست ہے وہ میرا دوست اور جو حسین کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے یہی وجہ ہے خواجہ اجمیری نے دین محمد (ص) کو حضرت امام حسین (ع) کے نام سے موسوم کرکے واضح کردیا ہے کہ نبی کریم (ص) کا اصلی دین اور اصلی اسلام حضرت امام حسین (ع) کے پاس ہےاور حسین بن علی (ع) کے بغیر دین اسلام کی شناخت ممکن نہیں ہے۔