امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسی ماہ سعودی عرب کے دورے پر پہنچیں گے، وہ اپنا پہلا غیر ملکی دورہ اسرائیل کے بجائے سعودی عرب سے شروع کررہے ہیں وہ اپنے اس دورے میں سعودی عرب کی سکیورٹی پرہونے والے امریکی اخراجات ، ٹیکس اور خراج کووصول کرنے کی کوشش کریں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسی ماہ سعودی عرب کے دورے پر پہنچیں گے، وہ اپنا پہلا غیر ملکی دورہ اسرائیل کے بجائے سعودی عرب سے شروع کررہے ہیں وہ اپنے اس دورے میں سعودی عرب کی سکیورٹی پرہونے والے امریکی اخراجات ، ٹیکس اور خراج کووصول کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکی صدر اپنے قریبی دوست ملک اسرائیل  کو چھوڑ کر پہلے دورے پر سعودی عرب کیوں جا رہے ہیں، اس کی حیران کن وجہ اب سامنے آ گئی ہے۔ دراصل وہ سعودی عرب کو اربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس ضمن میں متعدد معاہدے سعودی عرب کے ساتھ کرکے اپنا ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ سعودی عرب کو ہتھیار بیچنے والے ممالک میں سرفہرست ہے، چاہے یہ F-15 جنگی طیارے ہوں یا اربوں کھربوں ڈالر کے کنٹرول سسٹم۔ ذرائع کے مطابق امریکی اسلحہ ساز کمپنی لاک ہیڈ مارٹن سعودی عرب کو ٹرمینل ہائی آلٹی ٹوڈ ایریا میزائل ڈیفنس سسٹم فروخت کرنے کی خواہاں ہے۔ اس میزائل ڈیفنس سسٹم کی قیمت تقریباً ایک ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح لاک ہیڈ کمپنی کے ہی تیار کردہ C-2 بی ایم سی سافٹ ویئر سسٹم اور سیٹلائٹ سسٹم کی فروخت کی بات چیت بھی کی جارہی ہے۔ کمپنی بی اے ای سسٹمز پی ایل سی کی تیار کردہ بریڈلی فائٹنگ وہیکل اور ایم 109 آرٹلری وہیکل بھی مملکت کو فراہم کئے جانے والے اسلحہ پیکج کا حصہ ہوسکتی ہیں۔ چار عدد ملٹی مشن سرفس کمبیٹنٹ بحری جہازوں کی فروخت کی منظوریا مریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پہلے ہی دے چکا ہے۔ ان بحری جہازوں کی فروخت کا معاملہ ابھی حتمی طور پر طے نہیں پایا۔ اگر یہ معاہدہ ہوجاتا ہے تو امریکہ کی جانب سے کسی بھی بیرونی طاقت کو یہ ہتھیار فراہم کرنے کا پہلا واقعہ ہوگا۔ اس طرح مجموعی طور پر کئی ارب ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کی سعودی عرب کو فروخت کے معاہدے متوقع ہیں اور یہ ایسے معاہدے ہیں جن پر سعودی عرب کو عمل کرنا ہوگا ورنہ اس کی سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ امریکہ کا سعودی عرب پر شدید دباؤ ہے کہ امریکہ کو سعودی عرب کی حفاظت اور سکیورٹی پر جو خرجہ اٹھانا پڑ رہا ہے وہ سعودی عرب ادا نہیں کررہا ہے لہذا سعودی عرب کو امریکی صدر ٹرمپ کے اس دورے کے دوران وہ ٹیکس اور خراج ہتھیاروں کی خرید کے عنوان سے ادا کرنا پڑےگا۔