ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے کے بعد جہاں باغی فوجیوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مختلف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں وہیں یہ کشیدگی امریکہ اور ترکی کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے انجرلیک ایئر بیس پر امریکہ کے 90 ایٹم بم موجود ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی نے غیر ملکی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت ناکام ہونے کے بعد جہاں باغی فوجیوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مختلف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں وہیں یہ کشیدگی امریکہ اور ترکی کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس  صورت حال کے پیش نظر ترکی میں امریکہ کے زیر استعمال انجر لیک ایئربیس کو مقامی فوجی انتظامیہ کی جانب سے سیل کردیاگیا جبکہ طیاروں کی آمدورفت بند کر کے ایئربیس کی بجلی بھی منقطع کردی گئی ۔برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترکی میں موجود اس امریکی ایئر بیس میں امریکہ کے انتہائی خطرناک ایٹمی ہتھیاروں کے سٹورز موجود ہیں۔ برطانوی میڈیا نے ترک اخبار کے حوالے سے بتایا کہ ترکی میں واقع امریکی سفارتخانہ کی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایئر بیس سے پروازوں کا سلسلہ اب بحال ہو چکا ہے جبکہ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایئر بیس پر کسی قسم کی نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق اس بیس سے عراق و شام میں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اخبار کے مطابق انجرلک ایئر بیس امریکی سنٹرل کمانڈ نہ صرف عراق وشام میں دہشت گردوں کے خلاف فضائی آپریشن کیلئے سہولیات فراہم کرتی ہے بلکہ یہ یورپ میں موجود نیٹو کی ان چھ بڑی فوجی چھاﺅنیوں میں سے ایک ہے جہاں امریکی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بڑی تعدادمیں موجود ہیں،اگرچہ اس ایئر بیس میں موجود ایٹم بموں کی تعداد کی حتمی تفصیلات کا علم نہیں تاہم اطلاعات کے مطابق یہاں پچاس سے 90تک خطرناک ایٹم بم موجود ہیں۔ با خبر ذرائع کے مطابق ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کے پیچھے امریکہ، سعودی عرب اور اسرائیل کا ہاتھ ہے البتہ امریکہ  نے فوجی بغاوت ناکام ہونے کے بعد اس میں شرکت سے انکار کردیا ہے ادھر اسرائیل اور سعودی عرب بھی مصر جیسی فوجی بغاوت ترکی میں دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ ترک صدر اب بھی مصر کے معزول صدر محمد مرسی کے بہت  بڑے حامی ہیں جبکہ مصر کے معزول صدرمحمد مرسی سے ترک صدر کی محبت سعودی عرب کو  گوارا نہیں ہے۔