مہر خبررساں ایجنسی نے ڈان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کےوزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اعتراف کرتے ہوئے کہاہے کہ افغان طالبان کی قیادت کے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے اسلام آباد قابل توجہ حد تک ان پر اثر رکھتا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کا طالبان پر اچھا خاصا اثر ہے کیونکہ طالبان دہشت گردوں کی قیادت اور ان کے اہل خانہ پاکستان میں ہیں اور انہیں یہاں کچھ طبی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ سرتاج عزیز نے کہا ہم طالبان پر مذاکرات کی میز پر لانے کی حد تک دباؤ ڈال سکتے ہیں لیکن ہم کابل کی جانب سے مذاکرات نہیں کر سکتے کیونکہ ہم کابل کے برعکس انہیں کوئی آفر دینے کی پوزیشن میں نہیں۔سرتاج عزیز نے ان خیالات کا اظہار یکم مارچ کو واشنگٹن کی کونسل برائے خارجہ تعلقات نامی تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد نے افغان طالبان قیادت پر دباؤ ڈال کر انہیں پہلی مرتبہ 7 جولائی، 2015 کو کابل سے براہ راست مذاکرت کیلئے تیار کیا تھا۔جب پاکستانی مشیر سے پوچھا گیا کہ انہوں نے طالبان قیادت کو کیا سخت پیغام دیا تو انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد نے افغان طالبان پر دباؤ ڈالنے کیلئے ان کی نقل و حرکت، ہسپتالوں اور دوسری سہولیات تک رسائی محدود کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ مذاکرات کی میز پر نہ آئے تو انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہم نے طالبان پر واضح کیا ہے کہ ہم آپ کی 35 سالوں میں کافی مہمان نوازی کر چکے ہیں اور ہم مزید ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ دنیا آپ کی یہاں موجودگی پر ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان کے مشیر خارجہ کے اس بیان سے ظآہر ہوتا ہے کہ پاکستان کچھ دہشت گرد طالبان کے خلاف لڑ رہا ہے جبکہ بعض طالبان دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کررہا ہے اور انھیں پناہ دیئے ہوئے ہے۔