مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ محمد جواد ظریف نے جرمنی کے سابق چانسلر گرہارڈ شروڈر کے ساتھ ملاقات میں دو ٹوک اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کہا ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر جاری دہشت گردی کو فروغ دینے میں سعودی عرب کے انتہا پسندانہ وہابی نظریات اور سعودی عرب کی مالی امداد کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کے انتہا پسندانہ نظریات کی بنا پر علاقہ میں اس وقت عدم استحکام پیدا ہوگیا ہے اور سعودی عرب ایک طرف کھل کراور اعلانیہ طور پر دہشت گردوں کی حمایت کررہا ہے اور دوسری طرف رائے عامہ کو منحرف کرنے کے لئے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد بنا رہا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں اکثر سعودی عرب کے شہری ملوث ہیں۔ دہشت گردوں کو سعودی عرب سے بڑے پیمانے پر مالی اور جنکی وسائل فراہم مل رہے ہیں۔
ایرانی وزير خارجہ نے کہا کہ وہابی تکفیری فکر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لئے بہت بڑا اور سنجیدہ خطرہ ہے سعودی عرب نے شام میں کھل کر القاعدہ اور النصرہ دہشت گردوں کی حمایت کی اور شام کی قانونی اور جمہوری حکومت کو گرانے کے لئے دہشت گردوں کا سہارا لیا اور آج وہی دہشت گرد علاقائي اور عالمی امن کے لئے زبردست خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کی یمن میں جارحیت اور مداخلت دنیا کے سامنے واضح ہے سعودی عرب کی دوسرے اسلامی ممالک میں مداخلت آشکاراور نمایاں ہے لیکن وہ مداخلت کا پروپیگنڈہ ایران کے خلاف کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی عرب خظے میں اشتعال انگیزی اور غیر تعمیری اقدام انجام دے رہا ہے اور سعودی عرب کو اس کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑےگا۔ جواد ظریف نے کہا کہ ایران خطے میں امن و سلامتی کے سلسلے میں انپی کوششوں کو جاری رکھے گا اور شام میں امن بحال کرنے کے سلسلے میں بھی ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔
اس ملاقات میں جرمن کے سابق چانسلر نے ایران کے دورے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے کے بعد ایران کے خلاف تمام پابندیاں ختم ہوجائيں گی اور جرمنی کی کمپنیاں، ایران میں اپنا فعال کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔