مہر خبررساں ایجنسی نے ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں گزشتہ دنوں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں مسلمان شخص کے قتل کی تحقیق کرنے والے قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) نے انتہا پسند ہندوؤں کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اخلاق نامی شخص کا قتل اچانک نہیں ہوا بلکہ اسے منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا ہے۔ این سی ایم نے اپنی رپورٹ حکومت کے سامنے پیش کردی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں کے بعد اچانک اشتعال کے دوران قتل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ این سی ایم نے اپنی رپورٹ میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد حکومتی ارکان اور سیاست دانوں کے گائے کے گوشت پر بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا جس کی وجہ سے مختلف برادریوں کے درمیان تعلقات خراب ہو رہے ہیں لہٰذا اس طرح کے ماحول میں ایسے متنازعہ بیانات سے اجتناب برتا جائے یا پھر مزید حالات کی خرابی کے لیے تیار رہا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان ہی دنوں گائے کو ذبح کرنے کی افواہوں پر لوگوں نے 2 اور افراد کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم پولیس کی بروقت کارروائی سے یہ کوشش ناکام بنادی گئی۔ 3 رکنی ٹیم کے سربراہ نسیم احمد کا کہنا تھا کہ جب گائے کو ذبح کرنے کی مندر کے ذریعے افواہ پھیلائی گئی تو زیادہ تر لوگ سو رہے تھے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ لمحوں میں اتنی بڑے تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اخلاق کے قتل کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیم اس بات پر بھی متفق ہے کہ مندر جیسی جگہ کو ایک کیمونٹی کو دوسری کیمونٹی کے خلاف اشتعال دلانے کے لیے استعمال کیا گیا جو افسوس ناک ہے۔ کمیشن نے واقعہ کی تحقیق کے لیے علاقے کے لوگوں اور متاثرہ مسلمان خاندان سے بھی ملاقات کی۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ 28 ستمبر کو پیش آنے والے واقعے میں 200 کے قریب افراد نے گائے کے گوشت کو استعمال کرنے اور فریز کرنے کی افواہوں پر 50 سالہ محمد اخلاق کو تشدد کر کے قتل جبکہ ان کے 22 سالہ بیٹے دانش کو شدید زخمی کردیا تھا۔