اجراء کی تاریخ: 2 اکتوبر 2015 - 00:27

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآۂہ وسلم نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی بھی مولا ہیں ۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سن ۱۰ هجری میں ۱۸ /ذی الحجہ کو حج کی واپسی پر " واقعہ غدیر"  پیش آیا اور تین دن تک غدیر خم میں ایک لاکھ چوبیس ہزار حاجیوں کا مجمع قیام پذیر رہا، پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ و آلہ  نے سب سے طولانی خطبہ ارشاد فرمایا جو توحید ، ولایت اور امامت کے موضوعات پر مشتمل تھا ؛ اور جس میں آنحضور (ص) نے اپنے بعد حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور گیارہ ائمہ علیھم السلام  کو قیامت تک اپنا جانشین مقرر کیا۔

یہ دن محمد و آل محمد (علیھم السلام) کی سب بڑی عید کا دن شمار کی ہوتا ہے، اور اسی دن اللہ تعالی کے حکم سے  رسول کریم (ص) نےحضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کو بلافصل وصی اور خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ۔(بحار الانوار، ج۳۵، ص ۱۵۰)

آنحضور (ص) کےخطبہ کا سب سے زیاد مشھور و معروف جملہ جس کو شیعہ اور سنی نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس کے راویوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کی صحت میں ذرہ برابر بھی شک و تردید نہیں پایا جاتا، یہ ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:

”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“۔(جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں)

لفظ مولا ،اگرچہ مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس حدیث شریف میں مسلم طور پر امت کی سرپرستی اور ولایت کے معنی میں استعمال ہوا ہےکیونکہ اس مقام پر مولا اسی معنی میں ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے لئے ہے۔

کیونکہ اس مطلب پر چند قرائن و شواہد موجود ہیں :

۱۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان سے پہلے لوگوں کو اپنی رحلت کے نزدیک ہونے کی خبر دی اور انہیں قرآن و عترت کی سفارش فرمائی اور اس بات پر تاکید کی کہ یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے، اس کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ہیں۔

لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسے شخص کا تعارف کرانا چاہتے ہیں کہ امت پر قرآن کے ساتھ ساتھ اس کے دامن سے متمسک ہونا بھی واجب ہے تاکہ گمراھی اور ضلالت سے محفوظ رہ سکے۔

۲۔ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکمت عملی کے پیش نظر یہ مناسب نھیں ہے کہ ہزاروں حاجیوں کو جلتے ہوئے صحرا میں روکے رکھیں اور حکم دیں کہ پتھروں اور اونٹوں کے کجاؤں کا منبر بنایا جائے۔۔۔ صرف اس وجہ سے کہ مسلمانوں کے سامنے یہ اعلان کریں کہ حضرت علی علیہ السلام تمھارے دوست اور ناصر ہیں! بلکہ مسلم طور پر ایک اہم موضوع درپیش تھا اور وہ پیغمبر اسلام کے بعد ولایت و امامت کے علاوہ کچھ نھیں تھا۔

۳۔ خطیب بغدادی نے ابوہریرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ: جو شخص عید غدیر کے دن روزہ رکھے اس کے لئے ۶۰ مہینوں کے روزوں کا ثواب ہے، اور وہ دن عید غدیر کا دن ہے کہ جس روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا: کیا میں مؤمنین کا ولی نہیں ہوں؟

لوگوں نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ!آپ ہمارے ولی ہیں۔

اس وقت آنحضرت (ص) نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“۔

اس موقع پر عمر بن خطاب نے آگے بڑھ کر کہا: مبارک ہو ۔ اے علی بن ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا بن گئے۔

اس وقت خداوندعالم نے یہ آیت نازل فرمائی: الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔

آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا۔ ۔۔۔

لہذا مسلمانوں کا دین اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ حضرت علی علیہ السلام کے ولایت کا دل و جاں سے اقرار نہ کریں کیونکہ حضرت علی علیہ السلام ہی وہ عظیم ہستی ہیں جنھوں نے پیغمر اسلام کی حیات میں اور ان کی حیات طیبہ کے بعد دین اسلام کی حقیقی معنوں میں حفاظت کی اور ان کے بعد ان کے فرزندوں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) نے دین اسلام کی حفاظت کی اور حضرت امام حسین (ع) کے بعد ان کے نو فرزندوں نے دین کو فروغ دیا اور ان کے نویں فرزند (عج) آج پردہ غیب میں دین کی نصرت اور یاری کے لئے اللہ تعالی کے حکم کے منتظر ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ما تے ہیں :بنی اسرائیل کے انبیاء جس دن اپنا جانشین معین فر ما تے تھے اس دن کو عید کا دن قرار دیتے تھے ۔”عید غدیر “بھی وہ دن ہے جس دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جا نشین معین فر ما یا ۔ یہ مسلمانوں کی عظیم عید کا دن ہے۔

لیبلز