مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان کے سابق وزیر خارجہ عدنان منصور نے خطے کے تیزی سے بدلتے حالات اور علاقائی اور بین الاقوامی ثالثی بالخصوص لبنان میں سعودی عرب کے نئے اثر و رسوخ کے بارے میں مہر نیوز کی نامہ نگار وردہ سعد سے گفتگو کی ہے۔
مہر نیوز : لبنان میں صدر کے انتخاب پر بیرونی ممالک بالخصوص مغربی اور خلیج فارس کے ممالک کی خصوصی دلچسپی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اور خطے میں امریکی پالیسی کے تناظر میں لبنان کے مستقبل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عدنان منصور: لبنان کبھی بھی بیرونی توجہ خاص طور پر امریکہ، مغربی یورپ اور خلیج فارس کے ممالک کی ترجیحات سے دور نہیں رہا اور انہوں نے ہمیشہ اس ملک میں صدر کے انتخاب کے عمل کو آسان بنانے کی کوشش کی ہے، کیونکہ لبنان کے ان حکومتوں کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں جو خاص طور پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے لبنان کے انتہائی مشکل حالات کے بعد پروان چڑھے۔ صدر کے انتخاب کے عمل میں امریکہ، فرانس، مصر اور خلیج فارس کے ممالک کی طرف سے ثالثی کی گئی جس کے باعث بالآخر اس ملک میں جوزف عون کو صدارت ملی۔
مہر نیوز؛ لبنان میں عرب اور مغربی مفادات کے باعث سعودی عرب نے اچانک لبنان کے کیس کو آگے بڑھایا، حالانکہ ریاض گزشتہ سالوں میں اس معاملے سے دستبردار ہو گیا تھا۔ اس میدان میں سعودیوں کا کردار کیسا تھا اور آپ کا سقوط شام کے بعد خطے میں نئے توازن کی نوعیت کے بارے میں کیا خیال ہے؟
لبنان خطے میں ہونے والی تبدیلی اور مغرب کی پالیسیوں سے الگ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لبنان بین الاقوامی اور علاقائی سیاسی تنازعات میں اپنی فیصلہ سازی کی آزادی پر سمجھوتہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب اور عرب ممالک کی لبنان کی طرف توجہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسا ہی ہے لیکن شام میں رونما ہونے والے واقعات نے مغربی اور عرب ممالک میں لبنان کی طرف جھکاؤ پیدا کر دیا ہے۔ چنانچہ لبنان میں ایک طویل عرصے کے جمود اور سیاسی خلا بعد صدر کا انتخاب ہوا ہے، اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ شام میں حکومت کی تبدیلی کا براہ راست اثر پورے خطے اور اس کی حکومتوں پر پڑا ہے۔ شام میں تبدیلی کے ساتھ تعامل کا طریقہ بھی علاقائی مفادات کے مطابق ہے اور لبنان کی صورتحال بھی اسی عمل کا حصہ ہے۔
مہر نیوز؛ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لبنان اور شام کے تعلقات مستقبل میں پیچیدہ ہوں گے، کیا ہم اس میدان میں آسانی کا مشاہدیں کریں گے یا امریکہ اور اسرائیل کے مفادات دونوں ملکوں کے درمیان مزید چیلنجوں اور خدشات کا باعث بنتے رہیں گے؟
لبنان خطے کا اٹوٹ انگ ہے اور اس کی سلامتی، امن اور استحکام خطے پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لبنان کے شام کے ساتھ تاریخی، جغرافیائی، اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات ہیں اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ مقبوضہ فلسطین کی سرحد لبنان کے ساتھ بند ہے، لبنان کی واحد زمینی سرحد شام کے ساتھ ہے۔ اس طرح شام کو لبنان کی تجارت کے لیے ایک اہم سپلائی لائن سمجھا جاتا ہے اور لبنان کی برآمدات جو کہ اردن اور عراق جیسے عرب ممالک کو زمینی راستے سے درآمد کی جاتی ہیں، شام سے گزرتی ہیں۔
مہر نیوز؛ اس لیے لبنان کو مشترکہ مفادات کو مضبوط بنانے کے لیے دوطرفہ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہیے۔ لبنان اور شام کے درمیان معاہدہ صرف ایک ملک کے فائدے میں نہیں ہے۔ بلکہ اس کا فائدہ دونوں ملکوں کو ہوگا۔
تاہم مستقبل میں، بہت سے معاملات ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے؛ ان معاملات میں زمینی سرحدوں اور شامی پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی حل ہونا چاہیے کیونکہ اس کی لبنان کو بھاری اور ناقابل برداشت قیمت چکانی پڑی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی انتظامات کو بھی مدنظر رکھا جائے اور سرحدوں کو سمگلروں اور شامی اور لبنانی تخریب کار عناصر کے لیے بند کر دیا جائے۔ لہٰذا، بہت سے مسائل ہیں جنہیں مستقبل میں دونوں فریقوں کے درمیان باہمی اعتماد کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے اور لبنان اور شام کے درمیان برادرانہ تعلقات کی ایک وسیع تاریخ ہے۔