پاناما کے ایک سینئر عہدیدار نے امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاناما کینال سے متعلق دعووں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

مہر نیوز کے مطابق، پاناما کے سینئر عہدیدار ریکورٹے واسکیز نے امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاناما کینال سے متعلق دعووں کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا ہے کہ پانامہ کینال پانامہ کے ہاتھوں میں ہی رہے گی اور تمام ممالک سے تجارت کے لیے کھلی رہے گی۔

ریکورٹے واسکیز نے کہا کہ امریکہ کے حق میں نہر کے آپریشن سے متعلق موجودہ قوانین کو مستثنیٰ قرار دینا "افراتفری" کا باعث بنے گا۔

 حالیہ ہفتوں میں، ٹرمپ نے کئی بار دھمکی دی ہے کہ وہ نہر کا کنٹرول واپس لے سکتے ہیں، اور مستقبل کے امریکی صدر کے طور پر، وہ ایسا کرنے کے لیے فوجی اختیارات استعمال کرنے سے انکار نہیں کریں گے، کیونکہ پاناما کینال امریکہ کے لیے ناگزیر ہے۔

 ٹرمپ نے بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو ملانے والی نہر کی منتقلی کے لیے امریکی پرچم والے بحری جہازوں سے مانگی گئی فیس کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیا ہے۔ 

دوسری طرف پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ یہ نہر، پاناما کے ہاتھوں میں رہے گی اور امریکی پرچم والے جہازوں کے ساتھ خصوصی رعایت نہیں کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی رعایت کے لیے ٹرمپ کی درخواستوں کو معمول کے مطابق مسترد کر دیا جاتا ہے۔

 امریکہ نے اپنے ساحلوں کے درمیان تجارتی اور فوجی جہازوں کی آمدورفت کو آسان بنانے کے مقصد سے 1900 کی دہائی کے اوائل میں یہ نہر تعمیر کی تھی۔

پانامہ نہر 51 میل تک چلتی ہے۔ یہ بحری جہازوں کو جنوبی امریکہ کے سرے پر کیپ ہارن کے ارد گرد طویل اور مہنگے سفر سے بچنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔

 واشنگٹن نے 31 دسمبر 1999 کو آنجہانی صدر جمی کارٹر کے ذریعے 1977 میں دستخط کیے گئے ایک معاہدے کے تحت پانامہ جانے والی آبی گزرگاہ کا کنٹرول ترک کر دیا، تاہم اب کی بار صدر ٹرمپ اسے للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔