مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی اخبارات اور ویب سائٹس نے صیہونی حکومت کے وزیر جنگ یواف گیلنٹ کی برطرفی کے نتائج کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی اور تیزی سے بدلتی صورت حال پر اس کے اثرات پر بحث کی ہے۔
برطانیہ کے روزنامہ "فنانشل ٹائمز" نے سفارت کاروں کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھاہے: گیلنٹ کی برطرفی سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے لیے اپنے منحرف اتحاد پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔
سفارت کاروں کے مطابق اس اقدام سے نیتن یاہو کو صیہونی حکومت کی جنگوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی مزید آزادی ملتی ہے، خاص طور پر چونکہ نئے وزیر جنگ یسرائیل کاٹز کا فوجی تجربہ محدود ہے اور وہ نیتن یاہو کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
صیہونی اخبار یروشلم پوسٹ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ نیتن یاہو اس وقت اس حکومت کے وزیر اعظم، وزیر جنگ اور وزیر خارجہ کے عہدوں پر فائز ہیں۔ اس اخبار کا خیال ہے کہ کاٹز کے پاس وزارت دفاع سنبھالنے کے لیے ضروری اہلیت نہیں ہے اور جو ڈیل گیڈون سائر نے وزارت خارجہ کو سنبھالنے کے لیے قبول کی ہے وہ "پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف" ہے۔
دوسری جانب عبرانی روزنامہ "ہاریٹز" نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ٹرمپ کے امریکہ کے صدر منتخب ہونے سے دنیا میں لبرل جمہوریت کے تمام حامیوں کو خوفزدہ کر دیا گیا ہے اور "اسرائیل میں خصوصی تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔" اس اخبار کا خیال ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان اتحاد نے صیہونی حکومت کے مستقبل، اس کی سیاسی آزادی اور فلسطینیوں کے ساتھ مشترکہ مستقبل بنانے کی صلاحیت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اسی تناظر میں امریکی ویب سائٹ "ہل" (امریکی کانگریس کا میڈیا) کے ایک مضمون میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو کے اتحاد کے اندر غزہ میں بستیوں کی تعمیر نو کا دباؤ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ نے بطور صدر اپنی پہلی مدت کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے کی بستیوں کو قانونی قرار دیا اور یہ صورت حال مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔
برطانوی اخبار"گارڈین" نے نارویجن ریفیوجی کونسل کے سیکرٹری جنرل جان ایگلینڈ کے حوالے سے لکھا ہے کہ غزہ کے باشندوں کو تباہی کے مرحلے میں دھکیل دیا گیا ہے اور ان کے مصائب بے مثال ہیں۔
ایگلینڈ نے اس ہفتے غزہ کے دورے کے دوران انتہائی مایوسی کن مناظر دیکھے اور بتایا کہ اسرائیل نے مغربی ہتھیاروں سے ایک گنجان آباد علاقے کو ناقابل رہائش بنا دیا ہے۔
امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز" کے ایک مضمون میں بھی اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ڈیموکریٹس نے غزہ کو نظر انداز کیا ہے اور یہ انتخابات میں ان کی شکست کا باعث بنا ہے۔
اس مضمون میں جمہوریت پسندوں سے - جو انسانی مساوات اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں - صیہونی حکومت اور فلسطین کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو ان اصولوں کے ساتھ ترتیب دینے کے لیے کہا ہے۔
اس آرٹیکل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ دور میں فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت ایک مرکزی مسئلہ بن گیا ہے اور اسے نظر انداز کرنا ایک سیاسی تباہی ہوگی جس کی قیمت امریکیوں اور ان کی آزادی کو بھگتنا پڑے گی۔
اس کے علاوہ برطانوی اخبار "ڈیلی میل" نے نشاندہی کی ہے کہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں بدھ کی رات کو مکابی تل ابیب کی ٹیم کے میچ سے قبل ہونے والی پریڈ کے دوران اسرائیلی فٹ بال شائقین کی جانب سے فلسطینی جھنڈے پھاڑ دیے گئے اور افراتفری پھیل گئی۔
تقریب میں درجنوں نقاب پوش افراد کی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ "جہنم میں جاؤ، فلسطین" کے نعرے لگا رہے ہیں۔