صیہونی رجیم کے جنوبی لبنان خلاف تیار کردہ منصوبے کی ناکامی عرب دنیا کے اخبارات کی توجہ کا مرکز بنی ہے جو اس رجیم کو قوام متحدہ سے نکال باہر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اگرچہ صیہونی حکومت اور امریکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جنوبی لبنان میں تنازعات کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن تل ابیب کی جانب سے لبنان پر ناقابل قبول شرائط مسلط کرنا علاقے کے بارے میں ان  بدنیتی کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس سلسلے میں روزنامہ رائ الیوم نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: صیہونی دشمن لبنان پر سخت شرائط عائد کرکے اس ملک کی زمینی، سمندری اور فضائی خودمختاری کو مستقل طور پر پامال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وجہ سے، اس نے اپنے فوجیوں کی دریائے لیتانی کے جنوب میں واقع دیہاتوں میں کسی بھی وقت دراندازی کا خطرناک منصوبہ تجویز کیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ علاقہ ایک اور مغربی کنارہ بن جائے گا جو سکیورٹی کے لحاظ سے صیہونی حکومت کے کنٹرول میں ہو گا۔  البتہ اس منصوبے کے خلاف نہ صرف حزب اللہ بلکہ پورا لبنان کھڑا ہے۔ یہ منصوبہ حزب اللہ کی مزاحمت کی بدولت ناکام ہو گیا جس نے دشمن کو حیران کر دیا ہے۔

روزنامہ القدس العربی نے لکھا ہے: اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اس کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی فریق کو اقوام متحدہ سے بے دخل کیا جا سکتا ہے اور دنیا کا کوئی فریق صیہونی حکومت سے زیادہ اس قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں اس حکومت کی رکنیت کو معطل کرنا اور اسے نسل پرست حکومت قرار دینا ضروری ہے۔ صیہونی حکومت غزہ میں نسل کشی کے ارتکاب کے علاوہ پناہ گزینوں کی ایجنسی جیسے انسانی حقوق کے اداروں کی سرگرمیوں کے بھی خلاف ہے۔

لبنانی روزنامہ الاخبار نے لکھا: نیتن یاہو جب جنگ کے خاتمے کے وقت کا تعین کرنے کے بجائے اہداف کے تعین کی حکمت عملی کی بات کرتے ہیں تو وہ گیند صہیونی فوج کے گراؤنڈ میں پھینک دیتے ہیں تاکہ ان اہداف کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہ طے کیا جا سکے۔ جب کہ صیہونی دشمن جنوبی لبنان پر اپنی زمینی جارحیت کے آغاز سے لے کر اب تک سرحدی علاقے کے 2 سے 4 کلومیٹر کے علاوہ کسی ایک گاؤں پر بھی کوئی پیش رفت یا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اسی وجہ سے تل ابیب میڈیا کی جنگ میں اس جھوٹی کہانی کو پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ بنیادی طور پر صیہونی رجیم جنوبی علاقوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اب تک 120 صہیونی فوجی کیوں ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں؟

شام کے اخبار الثورہ نے امریکہ کے بارے میں لکھا: ہم نے حال ہی میں ٹرمپ اور ان کے انتخابی حریف کے درمیان "کچرا" بازی کا مشاہدہ کیا۔

یہ درست ہے کہ امریکہ کی ملکی صورت حال ہمارے لیے اتنی اہم نہیں ہے جتنی خطے کی صورت حال اور لبنان اور غزہ میں جنگ بندی اہم ہے جب کہ امریکہ میں انتخابی مقابلہ صرف ظاہری تبدیلی ہے، اصل صورت حال تو انتخابات کے بعد رونما ہو گی جس کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔

روزنامہ المراقب العراقی نے یمن کے بارے میں لکھا: یمنیوں نے ایک بار پھر اس ملک کے مختلف شعبوں میں ایک حماسہ تخلیق کیا ہے۔ صعدہ صوبے کے باشندوں نے 26 مقامات پر  ریلی نکال کر لبنان اور غزہ کے عوام کی حمایت کا اظہار کیا اور امریکہ اور صیہونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی آمادگی پر زور دیا۔ انہوں نے اس رجیم کے خلاف حزب اللہ کے استحکام اور قابضوں کے خلاف عراقی مزاحمت کی کارروائیوں کو سراہا۔

یمنی اخبار المسیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے: صیہونی دشمن نے اپنی ایک سالہ شکست سے سبق نہیں سیکھا ہے اور اپنے مزید وسائل اور فوجی کمانڈروں کو تباہ کرنے کے لیے موجودہ غاصبانہ جنگ کو جاری رکھنے پر مصر ہے۔

صیہونی بغیر کسی کامیابی کے دہائیاں پیچھے چلے گئے ہیں۔ نیتن یاہو صیہونی حکومت کو ایک طویل جنگ کی طرف لے گئے ہیں جس میں اس رجیم کے لیے کوئی فوجی یا اقتصادی فائدہ نہیں ہے اور یہ جنگ بالآخر خود اس کی تباہی کا سبب بنے گی۔ جب کہ مزاحمتی میزائلوں کی بدولت صیہونی آبادکار مقبوضہ علاقوں میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور ان کی معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ ریزرو فورسز تک کو بلایا گیا ہے جب کہ میدان جنگ میں موجود دستوں کے حوصلے پست ہوچکے ہیں اور وہ شدید اعصابی عارضوں میں مبتلاء ہو چکے ہیں۔