بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلمان مفکرین اور علماء غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت اور مہم جوئی کے خلاف اپنی حریم کی حفاظت اور دفاع کو قانونی حق سمجھتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق 38ویں بین الاقوامی اسلامی اتحاد کانفرنس کےاختتام پر رسمی مشترکہ بیان شائع کیا گیا، جس کا متن حسب ذیل ہے:

 بسم الله الرحمن الرحیم

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ» (أنبیاء/۹۲)

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عالمی فورم برائے تقریب مذاہب اسلامی نے 38ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی  کانفرنس کا مسئلہ فلسطین پر زور دیتے ہوئے مشترکہ اقدار کا حصول" کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب مسعود پزشکیان اور مسلم دنیا کے ممتاز دانشوروں کی ایک قابل ذکر تعداد شرکت سے منعقد کیا ۔

  یہ کانفرنس ایسے حالات میں منعقد کی جا رہی ہے کہ جب عالم اسلام غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کی وجہ سے غم و غصے کی لہر دوڑ چکی ہے۔ 

مزاحمتی قیادتوں اور کمانڈروں کے بڑے پیمانے پر قتل اور ایک طرف مظلوم فلسطینی عوام کا وحشیانہ قتل عام اور دوسری طرف اس رجیم کے لیے مغربی ممالک کی کھلی حمایت نے مسلم ممالک اور امت اسلامیہ کے تعاون کو پہلے سے کہیں زیادہ ضروری بنادیا ہے۔ 

غاصب صیہونی حکومت امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت سے دو بنیادی منصوبوں پر عمل پیرا ہے: پہلا: معصوم لوگوں کو قتل کر کے تمام فلسطینی اراضی پر قبضہ کرنا، جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں، نیز شدید محاصرے کے ذریعے غزہ تک انسانی امداد کی رسائی سے روکنا، پانی اور بجلی کی بندش اور بنیادی ضروریات سے محروم کر کے 2 ملین شہریوں کو بے گھر کرنا۔

 دوسرا: اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لا کر اپنی جعلی شناخت کو جائز بنانا۔ امید ہے کہ اسلامی ممالک آپس میں تعاون اور اتفاق کے ذریعے دشمنان اسلام کے مذموم مقاصد کے حصول کو روکنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

 پیغمبر اکرم ص کے یوم ولادت کی مناسبت سے 38ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس سے عالم اسلام کی 250 ممتاز شخصیات نے خطاب کیا اور ویبنار کے ذریعے 234 شخصیات نے مسئلہ فلسطین اور اسلامی تعاون سے متعلق 300 سے زائد علمی مقالات پیش کئے اور  مشترکہ اقدار کے حصول کے لیے بات چیت کی گئی۔ 


اس کانفرنس کے اختتامی اجلاس ایک بیان میں درج ذیل نکات پر زور دیا گیا۔

 1- قرآن کریم انسانیت کے لیے واحد محفوظ وحی اور وسیلہ ہدایت ہے۔ مسلمانوں اور اتحادیوں کے ساتھ امن و دوستی جب کہ استکبار کے ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت اس کی زندگی بخش تعلیمات میں سے ہے۔

 انسانی معاشرے میں تین مشترکہ اقدار، انسانی وقار، انصاف اور سلامتی خطے میں اسلامی معاشروں کے تعاون کے مشترکہ اسلامی اہداف میں شامل ہیں۔ 

انسانی وقار ایک خدائی تحفہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یکساں طور پر عطا کیا ہے اور ہر انسان کے خیالات  سے قطع نظر ان حقوق کی خلاف ورزی ظلم کی واضح مثال ہے۔

 "انصاف" بنی نوع انسان کے لیے ایک مستحکم حکومت کے قیام کے لیے ایک عقلی اور الہی حکم ہے جس میں نسلی، مذہبی اور گروہی وابستگیوں سے قطع نظر تمام انسانوں کے حقوق کے احترام اور منصفانہ سماجی تعامل کی بنیاد فراہم کی گئی ہے۔

 2- کانفرنس میں شریک علمائے کرام بیت المقدس کے مسئلہ کو عالم اسلام کی اہم ترین مشترکہ اقدار اور عالم اسلام کے متحد کرنے والے مسائل میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ بعض دینی اصولوں کی بنیاد پر فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت اور دفاع کرنا دینی اور اخلاقی ذمہ داریوں میں سے ہے اور صیہونی حکومت کے انسانیت سوز جرائم کے سامنے خاموشی تمام اسلامی اور انسانی اقدار سے متصادم ہے۔ 

3- عالم اسلام کے علمائے کرام طوفان الاقصیٰ آپریشن اور فلسطینی مجاہدین کی مزاحمت کو صیہونی حکومت کی غاصبانہ اور نسل پرستانہ اور جارحانہ پالیسیوں کا فیصلہ کن، واضح اور جائز جواب سمجھتے ہیں، کیونکہ یہ ایک تاریخ ساز اور تودیر ساز کارروائی ہے۔ 

لہٰذا فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں لبنان، یمن، عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں مزاحمتی محاذ کی قربانیاں اور اقدامات  قرآن و سنت نبوی کے مطابق ہیں اور اسلامی دنیا کی جانب سے اس کی بھرپور حمایت ضروری ہے۔ 

 4- مسلمان دانشور اور علماء غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت اور مہم جوئی کے خلاف اسلامی ممالک کی جانب سے جوابی کاروائی اور دفاع کو اپنا قانونی حق سمجھتے ہیں۔ نیز اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے کئے گئے آپریشن وعدہ صادق کو شام میں ایرانی قونصل خانے پر صیہونی حکومت کے دہشت گردانہ حملے کا فیصلہ کن اور جائز جواب سمجھتے ہیں۔

5- کانفرنس میں شریک علماء نے اس بات پر زور دیا کہ غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے کا واحد راستہ عالم اسلام کا اتحاد اور اس مجرم حکومت کے خلاف عملی اور مربوط اقدامات ہیں۔
 غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ اتحاد عالم اسلام کے لیے کبھی بھی سود مند نہیں ہو گا، کیونکہ یہ رجیم کسی بھی عہد کی پاسداری نہیں کرتی اور ہمیشہ عالم اسلام میں تباہی، دہشت اور فتنہ و فساد کے درپے رہتی ہے اور اب یہ حکومت اپنی کمزور ترین حالت میں ہے۔ خدا کی مدد اور اسلامی اقوام اور حکومتوں کی ہمدردی سے ایک عظیم فتح قریب ہے۔

 6- کانفرنس میں شریک علمائے کرام صیہونی حکومت کے ساتھ اسلامی حکومتوں کے سیاسی و اقتصادی تعلقات کے مکمل خاتمے کے خواہاں ہیں، جیسے تیل کی پابندی لگانا وغیر،
 اور وہ عالم اسلام کے علماء سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں اور دنیا کے آزاد انسانوں کو صیہونی حکومت کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی سفارش ہوئے غزہ کے مظلومین کے لئے مادی سہولیات، خوراک بھیجنے کو اپنا انسانی اور مذہبی فریضہ سمجھیں۔ 

7- امید ہے کہ عالم اسلام ایک منصفانہ امن کی طرف بڑھے گا اور خطے سے عسکریت پسندی کے عفریت کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ عالم اسلام کے دانشوروں نے یمن اور شام میں بے نتیجہ جنگوں کے خاتمے اور عرب ممالک کے سفارتخانے کو دوبارہ کھولنے کا خیر مقدم کیا ہے اور پائیدار امن کے حصول کا واحد راستہ مذاکرات کو سمجھتے ہوئے شام میں عرب ممالک کے سفارتخانے دوبارہ کھولے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک کا تعاون مزید پھیلے گا اور سائنس و ٹیکنالوجی، علاقائی سلامتی، سیاسی طاقت اور سودمند اقتصادی اور ثقافتی تبادلوں کے میدان میں ہم آہنگی کا باعث بنے گا اور ذرائع ابلاغ میں ہمآہنگی کے ذریعے دین مخالف پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جائے تاکہ اسلامی ممالک کی یونین کے قیام کے لیے سازگار ماحول فراہم ہوسکے۔

8- عالم اسلام کے علمائے کرام دنیا بھر کے اسلامی اداروں اور تعلیمی مراکز کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ انتہا پسندی اور تکفیریت کی تعلیمات کو اپنے اندر سے نکال باہر کر دیں اور اب جب کہ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوچکے ہیں، ایسے نوجوانوں کی تربیت کریں جن کے قلم عالمی استکبار اور اس کے پیروکاروں کے مقابلے میں چلیں اور عالم اسلام میں تفرقہ اور تصادم پیدا کرنے سے گریز کریں جو کہ عالم اسلام کے دشمنوں کا جال ہے اور مسلمانوں کے درمیان محبت اور رحمت کو فروغ دیں۔ 

 9- کانفرنس میں شریک علماء نے شہید اسماعیل ہنیہ (جن کے جسد خاکی پر امام خامنہ ای کی امامت میں لاکھوں لوگوں نے ایران میں نماز ادا کی) کو امت اسلامیہ کا شہید وحدت قرار دیتے ہوئے اس اتحاد کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر دیا۔

  اسلامی اتحاد کی 38ویں بین الاقوامی کانفرنس کے اختتام پر شرکاء نے کانفرنس کے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کرنے اور انیں رہنما اصولوں سے نوازنے رہبر معظم امام خامنہ ای کا شکریہ ادا کیا اور ایران کے مرحوم صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور مرحوم وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان کی مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور مزاحمتی محاذ کو مضبوط کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته

عالمی سپریم کونسل برائے تقریب مذاہب اسلامی
 38ویں اسلامی وحدت کانفرنس 19 ستمبر 2024ء