مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نئی حکومت کا نقطہ نظر بیان کیا اور قومی ہم آہنگی اور اتحاد کو خارجہ پالیسی کی کامیابی کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی نجات کا دارومدار اتفاق رائے اور مسائل کے حل کے لیے مشترکہ نقطہ نظر تک پہنچنے پر ہے۔
صدر پزشکیان نے خارجہ پالیسی کے میدان میں نئی حکومت کے اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا: جیسا کہ میں نے متعدد بار اور مختلف پلیٹ فارمز سے کہا ہے کہ ہمارا کسی سے کوئی تنازعہ نہیں ہے، ہماری پالیسی امن و دوستی، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات کی توسیع ہے تاہم یہ واضح ہے کہ ہم طاقت کی زبان کو قطعاً قبول نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج کچھ ممالک جمہوریت اور انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے ہوئے نہایت بے شرمی سے غزہ میں ہونے والے وحشیانہ جرائم کی حمایت کرتے ہیں اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ ہمیں جمہوریت کے بھاشن دینے لگتے ہیں۔
ایرانی صدر نے کہا کہ یہ ممالک اسرائیلی رجیم کے ہاتھوں غزہ میں ہزاروں خواتین اور بچوں کے قتل عام اور اسکولوں اور اسپتالوں پر بمباری کی کس قدر بے شرمی کے ساتھ حمایت کرتے ہیں، جب کہ وہ دوسرے ممالک پر انسانی حقوق کا احترام نہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں یا ان پر دباؤ ڈالتے ہیں کیونکہ ان کے پاس طاقت اور دفاعی صلاحیت ہے؟
انہوں نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ملکی اور عالمی ضروریات کے مطابق بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس سلسلے میں ممالک کی پارلیمنٹ کے کردار کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حکومت سنجیدگی سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں پر غور کریں، جن میں گیس اور توانائی کے شعبے، نقل و حمل اور ٹرانزٹ اور ایران کو ایک علاقائی تبادلے کے مرکز میں تبدیل کرنے کے لیے سرحدی منڈیوں کی صلاحیت کو فعال کرنا ایجنڈے میں شامل ہے۔
اس اجلاس میں پارلیمنٹ کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ارکان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔