اگر عورت کے ساتھ نہ جانے کی وجہ یہ ہو کہ وہ مشی اربعین پر اعتقاد نہیں رکھتی تو یہ کوئی معقول وجہ نہیں ہے اور اس صورت میں مرد کو بیوی کی رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ ایام میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا 

جس میں علماء کرام نے اربعین کے متعلق سوالات و شبہات کے جوابات دیے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کے زیارت اربعین پہ جانے کے لیے بیوی کی رضامندی کی کیا حیثیت ہے۔

جس کا جواب حجۃ الاسلام رضا پارچہ باف کی جانب سے دیا گیا۔

اربعین کے دنوں میں پیش آنے والے اکثر سوالات میں سے ایک سوال میاں بیوی کا ایک ساتھ اربعین کی مشی پہ جانا کے متعلق ہوتا ہے۔

بعض اوقات مختلف وجوہات کی بنا پر میاں بیوی کا ایک ساتھ مشی پہ جانا ممکن نہیں ہوتا اور شوہر کو اکیلے جانا پڑتا ہے۔ اس کی ایک وجہ بیوی کا راضی نہ ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ تو کیا اس صورت میں اربعین کی مشی پر جانے کے لئے کی بیوی کی رضامندی شوہر کے لیے لیے شرط ہے؟

جواب:

اگر مخالفت کی وجہ محض زیارت کی خواہش نہیں ہے تو بہتر ہے کہ وہ پہلے اپنی بیوی کو راضی کرے اور اسے اس مشی اربعین کی فضیلت کے متعلق اگاہ کرے اور اسے بھی اپنے ہمراہ لے جائے۔ جیسے کے ہمیں اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں نظر آتا ہے کہ وہ اپنی ازواج کے ہمراہ خانہ کعبہ حج کے لیے جایا کرتے تھے۔

البتہ اگر عورت کے ساتھ نہ جانے کی وجہ مشی اربعین پر اعتقاد نہ رکھنا ہو تو یہ صحیح نہیں ہے اور اس صورت میں مرد کے لیے بیوی کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن اگر اس زیارت کی وجہ سے انکی ازدواجی زندگی میں اختلافات پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں اپنا ازدواجی رشتہ ان اختلافات و فساد سے بچانا بہتر ہے۔