مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ 29 ذی القعدہ کو حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ آپ 202 ہجری میں پیدا ہوئے اور سات سال کی عمر میں امامت کے عظیم عہدے پر فائز ہوئے۔ شیعہ عقائد کے مطابق امام یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جانشین بننے کے لئے علم اور معاشرے کی قیادت کی صلاحیت ہونا شرط ہے۔ شیعہ عقیدے کے مطابق حقیقی امام کو پہچاننے کے دو طریقے ہیں:
الف۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور گذشتہ اماموں کی جانب سے تعارف
ب۔ ذاتی فضائل اور کمالات جو امام بننے کے لئے ضروری ہیں۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام ان صفات اور شرائط کے حامل ہونے کی وجہ سے بچپن میں ہی امام بن گئے۔ امام عالی مقام کی شہادت کے موقع پر ہدایت فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ حجت الاسلام رضا غلامی نے مہر نیوز سے خصوصی گفتگو کی ہے جوکہ قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
مہر نیوز: حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دور میں کونسا عباسی خلیفہ حکومت کرتا تھا؟
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دور میں دو عباسی خلفاء گزرے ہیں۔ اس دور میں مامون عباسی علوم اور بیت الحکمہ کی ایجاد میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کے دور میں شروع ہونے والے علمی مناظرے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دور میں جاری تھے۔
مہر نیوز: علمی ابحاث کی وجہ سے فرقوں کی تعداد میں کس حد تک اضافہ ہوا؟
اس زمانے میں کئی فرقے وجود میں آئے جن میں معتزلہ، غالبان، زندیقیان اور اہل حدیث شامل تھے اسی وجہ سے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ گئی تھی کیونکہ آپ کو دیگر امور کے ساتھ شیعوں کےعقائد کی حفاظت کے لئے بھی زیادہ کام کرنا پڑا۔
مہر نیوز: حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دور کو علمی شکوفائی کا دور کیوں کہا جاتا ہے؟
اس دور میں بغداد عالم اسلام کا دارالحکومت تھا اس شہر میں علمی مراکز تھے اور دنیا کے مختلف خطوں سے دانشور اور علماء آتے تھے اور علمی مناظرے ہوتے تھے۔
مہر نیوز: حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دور میں امامت کا موضوع زیادہ زیر بحث آیا۔ کیا بچپن میں کوئی امام بن سکتا ہے؟
حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد شیعوں کے لئے سخت حالات درپیش تھے۔ اضطراب کی وجہ سے شیعہ امام رضا علیہ السلام کے بھائی عبداللہ بن موسی کو امام سمجھنے لگے۔ شیعہ جمع ہوکر بحث کرتے تھے اور امام کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو کرتے تھے۔ اس وقت حضرت امام رضا علیہ السلام کے ایک صحابی ریان بن شبیب نے کہا کہ امامت ایک عہدہ ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور ایک روزہ بچہ بھی امام ہوسکتا ہے۔ اگر اللہ کسی کو عطا نہ کرے تو ایک ہزار سال عمر کرنے کے باوجود عام لوگوں اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
شیعوں کے درمیان امامت کی بحث اس قدر زور پکڑنے لگی کہ حج کے ایام میں 80 برجستہ شیعہ علماء نے مدینہ کی طرف حرکت کی تاکہ مسئلے کا حل ڈھونڈیں۔ مدینہ پہنچ کر علماء نے پہلے عبداللہ بن موسی سے ملاقات کی اور کچھ سوالات کئے لیکن اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔ اس کے بعد علماء کا وفد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو امام عالی مقام نے اطمینان بخش جواب دیا جس سے وہ مطمئن ہوگئے اور یقین ہوگیا کہ امام محمد تقی علیہ السلام ہی اس منصب کے لائق ہیں۔
مہر نیوز: حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے مناظروں کے بارے میں کچھ بتائیں۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے مناظروں سے شیعوں کو امامت کی تبلیغ میں فائدہ ہوا۔ اس زمانے میں مناظروں کا زیادہ رواج تھا۔ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ علمی مناظرہ کرنے والوں کے مختلف مقاصد تھے۔ بعض کے سیاسی اہداف تھے؛ بعض امام کی کم عمری کی وجہ تمسخر کا ارادہ رکھتے تھے؛ بعض شیعوں نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی علمی قابلیت کا مشاہدہ کرنے کے لئے علمی مناظرے کا اہتمام کیا۔
یحیی ابن اکثم کے ساتھ ہونے والے مناظرے کا مقصد امام کو مغلوب کرکے میدان سے باہر کرنا تھا جس میں یحیی نے حالت احرام میں شکار کرنے کا حکم پوچھا تو امام عالی مقام نے سوال کو متعدد ذیلی سوالوں میں بدل دیا اور سوال کیا کہ شکار کرنے والا حرم کے اندر تھا یا باہر؟ حرمت کے بارے میں جانتا تھا یا نہیں؟ عمدا شکار کیا ہے یا بھول کر؟ آزاد ہے یا غلام؟ بالغ ہے یا نابالغ؟ ایک مرتبہ کیا ہے یا متعدد؟ پرندہ شکار کیا ہے یا دوسرا جانور؟ دوبارہ کرنے کا قصد رکھتا ہے یا نہیں؟ رات کا شکار کیا ہے یا دن کو؟ احرام عمرے کا ہے یا حج کا؟ امام کے سوالات سن کر یحیی شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا اور کچھ نہیں بول سکا۔
امام محمد تقی علیہ السلام کے مقام کی وجہ سے مامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام سے کرادی۔ امام اس شادی پر راضی نہیں تھے لیکن آپ کو مجبور کیا گیا۔ اس شادی کی وجہ سے امام لوگوں میں مزید مقبول ہوگئے۔ عباسی خاندان والوں نے اس سے خطرہ محسوس کیا اور مامون سے کہا خلافت کو عباسی خاندان سے علوی خاندان میں منتقل کرنا چاہتے ہیں؟
مہر نیوز: حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دور میں وکالت کا نظام کیسا تھا؟
وکالت کا نظام حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے دور کا شاہکار ہے جو ایک نیٹ ورک کی شکل میں پھیل گیا اور شیعہ عقائد اور آداب و رسوم کی ترویج میں معاون ثابت ہوا۔ امام علیہ السلام نے مختلف علاقوں میں اپنے وکلاء تعیینات کئے۔ عباسی حکومت کی سازشوں کے مقابلے میں امام اس نظام سے استفادہ کرتے تھے اور حکومت کی فعالیتوں سے باخبر رہتے تھے۔ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے طوس اور قم سمیت مختلف شہروں میں شیعہ مراکز قائم کئے۔