مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امت واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے بانی انقلاب اسلامی ایران، سید روح اللہ خمینی رحمة اللہ علیہ کی برسی کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ امام خمینیؒ کے انقلاب کو پہچاننے کے لئے ان اہداف اور نعروں کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کے ساتھ وہ میدان میں اترے۔ ان میں سے ایک لا شرقیہ و لا غربیہ، جمہوریہ اسلامیہ، دوسرا مستضعفین کا دفاع، تیسرا مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونا اور ظالم کی مخالفت میں اپنی قوت کا اظہار، چوتھا اپنے معاشرہ کو ظلم اور استبدادی نظام سے آزادی دلا کر اس معاشرہ کو اسلام، قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کے دیے ہوئے معارف کی روشنی میں چلانا اور ایک ایسا نظام متعارف کرانا جو دنیا پر حاکم سرمایہ دارانہ نظام کے مقابل کھڑا ہو سکے۔
ان اہداف اور نعروں کے پس منظر میں وہ حالات تھے جس میں ایک تاریخی اور نظریاتی قوم، شہنشاہ ایران جیسے ایک مغربی غلام کے جوتوں تلے پس کر رہ گئی تھی۔ ایسی قوم جسے اپنی حیثیت، آبرو اور روشن ماضی ختم ہوتا ہوا نظر آئے تو یقینا اس کے لوگ صف آرا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف امام خمینیؒ خود ایک اسلامی محقق تھے، لہذا وہ اپنی قوم کو بھی اپنی آئیڈیالوجی اور فکر کے مطابق منزل مراد تک پہنچانا چاہتے تھے جو کہ اسلام کا منشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینیؒ نے یہ نعرے دیے لیکن ان کی حدود کا تعین نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ جب تک آخری ظالم موجود ہے، ہماری جنگ جاری ہے۔
انقلاب کے اوائل میں اس بات کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ انقلاب برآمد کیا جائے گا۔ اس سے یہ مراد لی گئی کہ ایران دنیا پر حملہ کرے گا۔ لیکن آج ہم سب ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ”لا شرقیہ و لا غربیہ“ کی فکر پوری دنیا میں اپنی حقانیت ثابت کر کے برآمد ہو چکی ہے۔ یعنی یہ کہ ایسی بیداری جس سے انسانوں کے اندر انسانیت پیدا کرنا، ہر کمزور قوم کو یقین دلانا کہ تم کمزور نہیں ہو بلکہ تمہیں کمزور ہونے کی غلط فہمی کا شکار کر دیا گیا ہے۔ انسان میں جب یہ شعور بیدار ہو جائے تو اسے اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور وہ بڑے بڑوں سے بھڑ جاتا ہے۔ لیکن جب اسے اپنی طاقت کا احساس نہ ہو تو پھر وہ کمزور سے بھی ڈرنے لگتا ہے۔ یہ وہی شعور ہے جو اولا امام حسین علیہ السلام سے تمام انسانیت کو برآمد ہوا۔ آج غزہ کی حمایت میں حتی مسیحی، ایتھسٹ اور یہودی بھی سڑکوں پہ نکلے ہیں، تو کیا یہ وہی احساس اور شعور نہیں ہے کہ سب مل کر ظالم نظام کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ کی بڑی بڑی جامعات کے اندر وہ بچیاں جو حجاب کی رعایت نہیں کرتیں لیکن ظلم کے نظام کے مقابلہ میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ پولیس کے بوٹ کی ضربیں کھانے کے باوجود کہتی ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں۔ کیا یہ وہی شعور نہیں ہے جو اس وقت یمن جیسی کمزور قوم جس کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، جب وہ امریکہ و اسرائیل کو للکارتی ہے اور باب المندب اور خلیج کے مختلف علاقوں میں اسرائیل کی مدد کے لیے آنے والے جہازوں کو غرق کرتی ہے۔ کیا یہ وہی امام خمینیؒ کا دیا ہوا شعور نہیں ہے کہ اب صرف ایرانی قوم نہیں بلکہ دنیا بھر میں موجود انسانوں کے اندر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ ہم کمزور نہیں ہیں، ہم دشمن کو اپنی سرزمین سے پاک کر سکتے ہیں۔ حزب اللہ جیسی چھوٹی سی جماعت اسرائیل، امریکہ اور یورپ کے مقابلہ میں ڈٹی ہوئی ہے اور اسرائیل کو نکیل ڈال رکھی ہے۔ کیا یہ وہی شعور نہیں ہے کہ لبنان کی چھوٹی سی آبادی کے اندر ایک چھوٹا سا گروہ اسرائیل کی ناک میں دم کر دے جبکہ یہی اسرائیل جس نے سن 60 کی دہائی کی جنگ میں مصر، اردن اور شام کے ممالک کو چھ دن میں ناکوں چنے چبوائے تھے۔
اس وقت اہل غزہ اور حماس جس فکر و شعور کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس نے فلسطین کے بچہ بچہ کو شعلہ ور کر دیا ہے۔ اب یہ بچے بھوکے رہتے ہیں لیکن ان کی زبان پر الموت امریکہ، الموت اسرائیل جیسے الفاظ ورد کرتے ہیں۔ ان دنوں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خط کا بڑا چرچا ہے جو انہوں نے یورپ اور امریکہ کے نوجوانوں کے نام لکھا ہے۔ رہبر معظم نے اس خط کے ذریعہ لوگوں میں ایک نیا شعور پیدا کیا ہے۔ انقلاب اسلامی نے ثابت کیا ہے کہ فکر کی سرحد نہیں ہوتی۔ آج بھی امام خمینیؒ کا نعرہ زندہ ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہا ہے۔