مہر خبررساں ایجنسی، گروہ عقیدہ و دین: انسان کی پوری توجہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے پر مرکوز رہی ہے کیونکہ وہ ذاتی طور پرایک محتاج مخلوق ہے۔ اس اہم مسئلے پر انسان کو کئی خطرات درپیش ہیں۔ اصل ضرورت کی تشخیص اور حقیقی راہ حل کی پہچان میں انسان غلطی کا شکار ہوسکتا ہے۔ انبیاء الہی کا ہدف انسان کو ان خطرات سے بچانا ہے۔تعلیمات الہی اس سلسلے میں بہترین مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
قرآن کریم بے نظیر ہدایت ہےجو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے توسط سے اللہ نے نازل کیا ہے۔ انسان اس کتاب آسمانی کی تعلیمات کے سایے میں اس دنیا میں سکون اور اطمینان سے بھری زندگی گزارسکتا ہے۔
قرآن کریم وہ تعلیمات انسان کو دیتا ہے جو اکیسویں صدی میں تمام تر ترقیوں کے باوجود انسان کو کسی اور ذریعے سے میسر نہیں ہوسکتی ہیں۔ قرآن کریم کی حقائق پر عمل کرنے سے انسان فلاح پاسکتا ہےبنابراین اس کی تعلیمات پرعمل کرنے والے ہی گمراہی سے بچ سکتے ہیں۔قرآن کے ساتھ تعلق رکھنے والے حقائق کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور راہ حق پر چلنے کے لئے ان کو نور ہدایت نصیب ہوتا ہے۔
قرآن سے استفادہ کرنے کے لئے اس سے انس ہونا ضروری ہے۔ حفظ قرآن انس کا بہترین طریقہ ہے۔ اگر قرآن کو سمجھ کر حفظ کرے تو سونے پر سہاگہ ہوگا۔ حفظ قرآن زندگی میں قرآن کو عملی طور پر اپنانے کا مقدمہ ہونا چاہئے۔
اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُکُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْیَسْتَجِیبُوا لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں، پس اگر تم سچے ہو تو تم انہیں ذرا پکار کر تو دیکھو انہیں چاہیے کہ تمہیں (تمہاری دعاؤں کا) جواب دیں۔
یعنی خدا کے علاوہ جن کو اپنی حاجتوں کے لئے پکارتے ہو، وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں جو خود دوسروں کے محتاج ہیں اسی لئے تمہاری ضرورتیں پوری نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو آزماکر دیکھ لیں۔ وہ کسی بھی طور پر تمہاری حاجتیں پوری نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ اس خدا کے علاوہ کسی کے اندر یہ طاقت نہیں ہے۔
اس دنیا میں اللہ کے علاوہ سب محتاج ہیں لہذا اگر خالی ہاتھ کسی کے در پر جائیں تو خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ اگر یقین نہیں آتا تو آزما کر دیکھیں۔
توحید کو قبول کرنے کے بعد کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ توحید صرف زبان سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور دل سے ماننے کا نام نہیں بلکہ دل اور زبان کے علاوہ بھی کچھ ذمہ داریاں انسان کے حوالے کرتی ہے۔ موحد خود کو کچھ امور کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ ذاتی اور انفرادی امور کے علاوہ معاشرتی امور کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے مثلا حکومت، اقتصاد، عمومی روابط جیسے امور کا بھی مومن ذمہ دار ہوتا ہے۔
اگر انسان اس ذات وحدہ لاشریک کے بغیر کسی اور کی اطاعت کرے تو شرک کے دائرے میں آتا ہے۔ اگرانسان ذاتی طور پر موحد ہو لیکن اجتماعی حوالے سے کسی اور کی اطاعت کرے تو بہت بڑی بلائیں انسان کو گھیر لیتی ہیں کیونکہ اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت توحید کے منافی ہے۔