مہر خبررساں ایجنسی-دین و عقیدہ گروپ ڈیسک؛ آج 15 ذی الحجہ کو حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ آپ بچپن میں ہی امامت کے عظیم عہدے پر فائز ہونے والے دوسرے امام ہیں۔ آپ نے 212 ہجری میں مدینہ میں آنکھیں کھولیں اور 220 ہجری میں اپنے والد گرامی حضرت امام جواد علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا عظیم عہدہ سنبھالا۔
حضرت امام ہادی علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر مہر نیوز نے ہدایت فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ حجت الاسلام غلامی سے امام عالی مقام کی سیرت طیبہ پر اظہار خیال کرنے کے لئے رابطہ کیا۔
حجت الاسلام غلامی نے حضرت امام ہادی علیہ السلام کی علمی میراث اور منحرف فرقوں اور گروہوں کے خلاف آپ کے قیام پر روشنی ڈالی۔
مہر خبررساں ایجنسی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے خطبہ فدکیہ میں فرمایا کہ اللہ نے ہماری امامت کو تفرقے اور اختلافات سے بچنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ بنیادی طور پر ائمہ معصومین کی ایک ذمہ داری معاشرے اور اس میں رہنے والوں کو اختلافات سے بچانا اور اتحاد کی حفاظت کرنا ہے۔
ائمہ معصومین کے مختلف ادوار میں دوسرے ادیان اور مذاہب کے عقائد ترجمہ کرکے مسلمانوں کے درمیان پھیلایا گیا۔ ان حالات ائمہ علیہم السلام کی ذمہ داری تھی کہ معاشرے کو بے راہ روی اور انحرافات سے بچانے کے لئے صحیح عقیدے کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں بھی منحرف فرقوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اسی لئے آپ نے لوگوں کو ان فرقوں سے بچانے اور امامت اور امام کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے زیارت جامعہ کی شکل میں ایک جامع سند پیش کی۔
حجت الاسلام غلامی نے منحرف فرقوں کے بارے میں توضیح دیتے ہوئے کہا کہ امام ہادی علیہ السلام کے دور میں غالیوں کا وجود میں آنا اور مختلف حصوں میں پھیل جانا سخت چلینج بن رہا تھا۔ فارس بن حاتم، حسن بن محمد قمی اور علی بن حسکہ غالیوں کے سرکردہ افراد میں شمار ہوتے تھے۔ غالیوں کے علاوہ فرقہ مجسمہ بھی سر اٹھارہا تھا جو اللہ کے جسم اور اعضاء کا قائل تھا۔ ان فرقوں کی وجہ سے شیعوں کے درمیان اختلافات پیدا ہورہے تھے اسی لئے حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے ان فرقوں سے مبارزہ کیا۔
ہدایت فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ نے اس دور کے گمراہ فرقوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ فرقہ واقفیہ بھی منحرف افراد پر مشتمل ایک گروہ تھا جن کے عقیدے کے مطابق امام موسی کاظم علیہ السلام زندہ ہیں اور آپ ہی امام موعود ہیں جن کی احادیث میں بشارت دی گئی ہے۔ امام علی نقی علیہ السلام نے فرقہ واقفیہ کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ ایک مرتبہ آپ کے کسی چاہنے والے نے خط لکھ کر سوال کیا کہ کیا نماز کی قنوت میں فرقہ واقفیہ پر لعنت کرنا صحیح ہے؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ قنوت پر واقفیہ پر لعنت کرو۔
حجت الاسلام غلامی نے حضرت امام ہادی علیہ السلام کے جہادی طریقوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید کہا کہ امام عالی مقام نے زیارت جامعہ کی شکل میں شیعوں کو امامت، امام کے مقام اور خصوصیات سے آگاہ کرادیا۔ یہ امامت کی حقیقت اور امام کی صفات سے روشناس کرانے اور منحرف فرقوں سے مقابلے کا بہترین طریقہ تھا۔
حجت الاسلام غلامی نے امام ہادی علیہ السلام کے دور میں وکالت کے نظام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جابر حکمرانوں کی جانب سے امام ہادی علیہ السلام پر بہت سختی کی جاتی تھی اسی وجہ سے آپ نے شیعوں سے رابطہ برقرار رکھنے کے لئے وکالت کا نظام مزید منظم کردیا۔
وکالت کا نظام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے دور میں تشکیل پایا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے زمانے میں یہ نظام وسیع ہوا۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اس نظام کو منظم کرتے ہوئے بعض مقامات پر اپنے وکلاء کو وسیع اختیارات عطا کئے۔ امام عالی مقام دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والے شیعوں کے بارے میں آگاہی اور غالیوں اور دوسرے فرقوں کی سرگرمیوں سے باخبر رہنے کے لئے وکالت کے نیٹ ورک سے استفادہ کرتے تھے۔
حجت الاسلام غلامی نے مزید کہا کہ ابوعلی حسن بن راشد بغدادی، علی بن مہزیار اہوازی، ابراہیم بن محمد ہمدانی، احمد بن اسحاق اشعری قمی، فضل بن شاذان حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے نامور وکلاء میں سے تھے جن کے توسط امام ہادی علیہ السلام مسلمانوں کی ہدایت و رہبری کا فریضہ انجام دیتے تھے۔